ضرورت کے مطابق نزول

آسمان دنیا سے رسول اللہ ﷺ پر قرآن مجید تھوڑا تھوڑا نازل ہوا ، جیسا موقع ہوتا تھا اور جیسی ضرورت ہوتی تھی اللہ کے حکم سے اس کے مطابق قرآن کریم کا نزول ہوتا تھا۔ کبھی دو چار آیات ، کبھی ایک ایک ، دو دو رکوع اور کبھی پوری پوری سورتیں اللہ تعالی کی حکمت اور مصلحت کے مطابق نازل ہوتی رہیں ۔

قرآن کریم میں ہے:

وَقُرَانًا فَرَقْنَهُ لِتَقْرَاهُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُكَثٍ وَنَزَّلْنَهُ تَنزِيلا (بنی اسرائیل (106)

اور ہم نے قرآن کریم ٹکڑے ٹکڑے کر کے نازل کیا تا کہ آپ ﷺ اس کو لوگوں پر درجہ بدرجہ اور نصیر مخبر کر تلاوت کریں اور ہم نے اس کو تھوڑا تھوڑا اتارا ہے۔

قرآن کریم کے مضمون کو مختلف اوقات میں ضرورت کے مطابق نازل کیا گیا۔ اس طریقے سے قرآن کریم کو زبانی یاد کرنے میں بھی سہولت ہو گئی اور مشرکین و کفار کا جواب دینا آسان ہو گیا۔

کافروں نے ایک اعتراض یہ کیا تھا کہ یہ قرآن مجید ایک ہی وقت میں پورا کیوں نہیں نازل کیا گیا۔ اس کے جواب میں اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی

کذلک لنثبت به فرانک ورله تربیلا) (الفرقان (32)

اپس اس طرح طے ہوا کہ ہم تھوڑا تھوڑا کر کے اتاریں تاکہ اس کے ساتھ ہم آپ اللہ کے دل کو مضبوط رکھیں اور بغیر بھیر کر اس کی تلاوت کریں۔

کھڑوں میں نازل ہونے سے قرآن کا زبانی یاد کرنا ، خوش الحانی سے تلاوے کرنا اور اس کے مضامین پر طور کرنا بہت آسان ہو گیا اور سب سے ملید بات یہ ہے کہ جب کفار و مشرکین کوئی اعتراض کرتے تو قرآن اس کا جواب دیتا۔ رسول اللہ ﷺ پر بار بار وہی آتی تو آپ ﷺ کے دل کو حوصلہ ملاک اللہ تعالی کی توجہ عدد اور رہا امالی ہر وقت میرے ساتھ ہے، اس کی مدد آ رہی ہے اور میرا ہر کام اس کی نظر میں ہے۔ اس طرح آپ ﷺ کا اعتماد بڑھتا اور حوصلہ مضبوط ہوتا۔