2- بیوی کے حقوق

آپ پڑھ چکے ہیں کہ جب کوئی مرد اور عورت گواہوں کی موجودگی میں ایک ساتھ رہنے کا عہد کرتے ہیں تو دو میاں بیوی ہو جاتے ہیں۔ اس عہد کو نکاح کہا جاتا ہے۔ نکاح چونکہ مرد اور عورت کا آپس میں ہوتا ہے اس لیے ان دونوں کی رضا مندی نہایت ضروری ہے۔

2.1 نکاح میں عورت کی پسند اور رضا مندی

اسلام سے پہلے عورتوں کی شادی میں ان کی پسند یا رضا مندی ضروری نہیں سمجھی جاتی تھی ۔ ماں باپ یا ولی جس کے ساتھ چاہتے نکاح کر دیتے تھے۔ آج بھی بعض علاقوں میں یہیں رواج ہے۔ کوئی لڑکی اگر اپنی شرم و حیا کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی پسند یا نا پسند کا اظہار کر دے تو اسے بہت برا سمجھا جاتا ہے۔ اسلام نے نکاح کے لیے عورت کی اجازت اور رضامندی کو ضروری قرار دیا ۔ اگر باپ لڑکی کی مرضی کے خلاف اس کی شادی کر دے تو لڑکی کی خواہش پر نکاح بھی ختم کیا جا سکتا ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک عورت کا شوہر فوت ہو گیا۔ اس نے ایک شخص سے نکاحکرنا چاہا لیکن اس کے باپ نے کسی اور شخص سے ان کا نکاح کر دیا۔ عورت نے رسول اللہ ﷺ سے جا کر شکایت کی۔ آپ ﷺ نے اس کے باپ کو بلا کر پوچھا کہ تم نے اس کی مرضی کے خلاف اس کا نکاح کیوں کر دیا ؟ اس نے کہا یہ جس سے شادی کرنا چاہتی تھی میں نے اس سے بہتر شخص سے اس کی شادی کی ہے ۔ آپ ﷺ نے باپ کی بات نہیں مانی اور دونوں میں علیحدگی کروادی۔

ایک اور روایت میں ہے کہ ایک کنواری لڑکی نے رسول اللہ ﷺ سے آکر شکایت کی کہ اس کے باپ نے اس کی مرضی کے خلاف اس کی شادی کر دی ہے۔ آپ ﷺ نے لڑکی کو اختیار دیا کہ وہ چاہے تو قبول کرے اور اگر چاہے تو رد کر دے۔

آنحضرت سے نے ارشاد فرمایا : بیوہ یا طلاق یافتہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک وہ صاف الفاظ میں اجازت نہ دے دے اور کنواری لڑکی کا اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی رضا مندی نہ معلوم ہو جائے ۔ لوگوں نے پوچھا اس کی رضا مندی معلوم کرنے کی کیا شکل ہے آپ ﷺ نے فرمایا اس کی خاموشی ہی اس کی اجازت ہے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے لیے اپنی پسند یا نا پسند کا اظہار کرنا کوئی عیب کی بات نہیں بلکہ یہ اس کا حق ہے والدین کو چاہیے کہ اپنی بیٹیوں کے رشتے طے کرنے سے پہلے ان کی پسند معلوم کر لیا کریں۔

2.2 مہر کی ادائیگی

نکاح کے وقت مہر مقرر کیا جاتا ہے۔ مہر بیوی کا حق ہے اور شوہر کا فرض ہے کہ وہ مہر ادا کرے ۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر طلاق ہو جائے تو مہر ادا کرنا ہو گا جب کہ یہ بات غلط ہے۔ مہر کا تعلق نکاح سے ہے۔ جب کوئی شخص نکاح کرتا ہے تو اس پر مہر واجب ہو جاتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ مہر فوراً ادا کر دیا جائے اگر کسی وجہ سے فورا ادا نہ کیا جا سکے تو جب بھی گنجائش ہو ادا کرنا ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص بیوی کا مہر ادا کیے بغیر مر گیا اور بیوی نے اسے معاف بھی نہیں کیا تو وہ شوہر کے ذمے قرض رہے گا اور قیامت کے روز اس کا حساب دینا ہو گا۔ قرآن حکیم میں ہے:

وفا توهن أجورهن فريضة . ( الما : 24 ) پس ان کے مقرر مہر ادا کیا کرو یہ تم پر فرض ہے۔

وَاتُوا النِّسَاءَ صَدُقَتِهِنَّ نِحْلَةً ﴾ (النمسا (41) اور عورتوں کا مہر خوش دلی سے ادا کرو۔

عام طور پر لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ مہر کتنا ہونا چاہیے۔ کچھ لوگ بہت کم رقم کے طور پر مہر مقرر کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ مہر شرعی ہے۔ کچھ لوگ اتنا زیادہ مہر مقرر کرتے ہیں کہ جس کا ادا کرنا شوہر کے بس میں نہ ہو اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح مرد اپنی بیوی کے ساتھ خوشگوار تعلقات رکھنے پر مجبور ہو گا کیوں کہ اسے معلوم ہے کہ طلاق کی صورت میں مہر دینا پڑے گا جو ممکن نہیں ہے۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے یہ دونوں باتیں درست نہیں ۔ مہر مرد کی حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے۔ نہ اتنا کم کہ اس کو ادا کرتے ہوئے محسوس ہی نہ ہو اور نہ اتنا زیادہ کہ اس کا ادا کرنا ممکن ہی نہ ہو۔

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ زیادہ مہر مقرر کرنے سے مرد خوشگوار تعلقات رکھنے پر مجبور ہو گا انہیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ بعض مرتبہ زیادہ مہر رکھنے کی صورت میں مرد نہ تو بیوی کو آباد کرتا ہے اور نہ طلاق دیتا ہے۔ آخر بیوی مجبور ہو کر مہر معاف کر کے طلاق حاصل کرتی ہے۔ اسلام کی تعلیمات ایسی ہیں کہ ان پر عمل کرنے میں آسانی ہے جب بھی آدمی اسلام کی تعلیم کو چھوڑ کر کوئی اور راہ اختیار کرتا ہے تو کسی نہ کسی مشکل میں پھنس جاتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں بیوی سے مہر معاف کرانے کا بھی رواج ہے۔ در حقیقت اسلام نے مہر ادا کرنے کے لیے مقرر کیا ہے معاف کرانے کے لیے نہیں۔

یوں بھی یہ بات مردانگی کے خلاف ہے کہ آدمی بیوی سے مہر معاف کرائے ۔ البتہ اگر بیوی اپنی مرضی سے سارا مہر یا اس کا کچھ حصہ معاف کر دے تو وہ معاف ہو جائے گا۔ قرآن حکیم نے مردوں سے کہا ہے کہ وہ خوش دلی سے مہر ادا کیا کریں ہاں اگر بیوی اپنی خوشی سے معاف کر دے تو کوئی حرج نہیں ۔ مرد کو معاف نہیں کروانا چاہیے بلکہ ادا کرنا چاہیے۔

قرآن حکیم میں ہے : واتُوا النِّسَاءَ صَدُقَتِهِنَّ نِحْلَةً فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِنْهُ نَفْسًا فَكُلُوه هنيئاً مرئياً (الماء (4) عورتوں کا مہر خوش دلی سے ادا کرو۔ پھر اگر وہ اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ چھوڑ دیں تو اس کو مزے سے کھاؤ پیو۔

2.3 نفقه

نفقہ سے مراد ہے کھانا کپڑا اور مکان ۔ شوہر کا فرض ہے کہ بیوی کے لیے کھانے لباس اور رہائش کا انتظام کرے۔ قرآن حکیم میں ہے کہ ہر شخص اپنی گنجائش کے مسابق بیوی کے نان نفقہ کا ذمہ دار ہے۔

لِيُنفِقُ ذُوْسَعَةٍ مِنْ سَعَته وَمَنْ قَدر عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنْفِقُ مِمَّا اللہُ ﴾ (الطلاق (7) گنجائش والا اپنی گنجائش کے مطابق خرچ کرے اور جس کی روزی تنگ ہے اسے جتنا اللہ تعالی نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرے ۔ اللہ تعالی کسی کو تکلیف نہیں دیتا مگر اس کے مطابق جتنا اس نے دیا ہے۔

رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اپنی بیویوں کو اچھا کھانا اور اچھا لباس دیا کرو ۔ بیوی کے لیے رہائش کا انتظام کرنا بھی شوہر کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اسْكُنُوهُنَّ مِن حَيْثُ سكنتم مِّنْ وُجُدِكُمْ ﴾ (الطلاق (6) بیویوں کو اپنی گنجائش کے مطابق وہیں رکھو جہاں تم خود ر ہو۔

ہمارے ہاں کبھی کبھی مشترکہ خاندانوں میں رہائش کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کر جاتا ہے۔ بیوی اپنے شوہر کو ساتھ لے کر سسرال سے الگ رہنے پر اصرار کرتی ہے جب کہ شوہر یا اس کے والدین اسے گوارا نہیں کرتے اور خاندان ٹوٹنے لکھتے ہیں۔ اس مسئلے کو بہت خوش اسلوبی سے حل کیا جا سکتا ہے۔ اگر بیوی شوہر کے ماں باپ کو اپنے ماں باپ کی طرح مجھے اور ان کے ساتھ رہے اور وہ بھی اپنے بیٹی کی طرح رہیں تو خوش اسلوبی سے اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ لیکن اگر کسی وجہ سے بیوی ان کے ساتھ نہ رہنا چاہے تو اس کو انا کا مسئلہ بنانا درست نہیں ہے۔ شوہر کی ذمہ داری ہے کہ اگر بیوی الگ رہائش کا مطالبہ کرے تو اس کے لیے الگ رہائش مہیا کرے، خود بھی اس کے ساتھ رہے۔ ماں باپ کو یہ بات محسوس نہیں کرنی چاہیے۔

2.4 حسن سلوک

قرآن حکیم نے بیوی کے ساتھ حسن سلوک کی بہت تاکید کی ہے۔ اگر شادی کے بعد مرد عورت کو پسند نہیں کرتا یا دونوں میں کسی سبب سے نا اتفاقی ہو جاتی ہے تب بھی عورتوں کے ساتھ اچھے برتاؤ اور تحمل و برداشت کا حکم ہے ۔ اللہ تعالی کا حکم ہے کہ : بیویوں کے ساتھ حسن سلوک سے گزارا کرو۔ اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو کیا نب ہے کہ تم کو ایک چیز ناپسند ہو لیکن اللہ تعالی نے اس میں بہت خیر و برکت رکھی ہو ۔ (النساء 19 )

عموما گھر یاد معاملات میں بہت چھوٹی چھوٹی باتوں پر میاں بیوی میں اختلاف پیدا ہو جاتا ہے۔ عورتیں عام طور پر نازک مزاج ہوتی ہیں اس لیے ان کا زیادہ خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے عورت کو پہلی سے تشبیہ دی کہ جس طرح پہلی نازک ہوتی ہے اور اس پر بوجھ پڑے تو ٹوٹ جاتی ہے لیکن انسانی جسم کے وہ تھے جن پر زندگی کا دارا کا دارو مدار ہے ( مثلا دل، جگر وغیرہ ) ان کی حفاظت بھی کرتی ہے، اسی طرح عورت نازک ہوتی ہے مگر نازک اور حساس رشتوں کی محافظ بھی۔ اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا: ایمان میں سب سے کامل وہ ہے جو اپنے اخلاق میں سب سے اچھا ہے اور تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے اچھا ہے

قرآن حکیم نے اس بات کی بہت تاکید کی ہے کہ عورتوں پر کسی طرح کا ظلم اور زیادتی نہ کی جائے۔ کچھ لوگ بیویوں کو تنگ کرنے کے لیے نہ تو انہیں آباد کرتے اور نہ طلاق دیتے ہیں ۔ ان کے بارے میں قرآن نے کہا ہے کہ اگر کوئی شخص بیوی کو تنگ کرنے کی نیت سے چار ماہ تک بیوی سے الگ رہے گا تو اسے طلاق ہو جائے گی اور جہاں چاہے دوسری شادی کر سکے گی۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہے : لِلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِنْ نِّسَاء هم تربص اربعة اشهر به ( البقر : 226 )

اسلام نے عورت کے جذبات کا اس حد تک خیال رکھا ہے کہ حضرت عمر ، ہر شادی شدہ فوجی کو چار ماہ کے بعد لازمی چھٹی پر گھر بھیجا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے بیوی کو مارنے پیٹنے برا بھلا کہنے اور اس سے علیحدگی اختیار کرنے سے منع فرمایا۔

2.5 حق ملکیت

جس طرح مرد اپنی کمائی کا خود مالک ہوتا ہے اسی طرح عورت کو بھی ملکیت کا حق ہے۔ عورت کو مہر میں جو رقم ملتی ہے، والدین یا بہن بھائیوں کی طرف سے جو تحفے تحائف میں وراثت میں جو حصہ ملے یا شوہر اپنی طرف سے جو کچھ دے وہ بیوی کی ملکیت ہوتا ہے اور وہ اسے جہاں چاہیے اور جیسے چاہے خرچ کر سکتی ہے۔ اس کے لیے اسے شوہر یا کسی دوسرے کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی ۔

قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے ؟ مردوں کے لیے ان کے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے ترکے میں سے حصہ اور عورتوں کے لیے ان کے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے ترکے میں حصہ ہے ۔ (النساء :(7)

جو عورتیں محنت مزدوری ملازمت یا کوئی کاروبار کرتی ہیں اور اس سے جو پیسہ کماتی ہیں وہ ان کی اپنی ملکیت ہے۔ شوہر کو حق نہیں ہے کہ اس میں سے کسی چیز کا مطالبہ کرے۔ ہاں بیوی اگر اپنی خوشی سے کچھ دے دے تو اس کا احسان ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : والنِّسَاء نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ) (النساء (32) عورتوں کا حصہ ہے جو وہ کمائیں۔

2.6 صفائی اور زیبائش کا سامان مہیا کرنا

شوہر کی ذمہ داری ہے کہ بیوی کے لیے صفائی زیبائش اور طہارت کا سامان مہیا کرے تا کہ وہ اپنا لباس بدن وغیرہ صاف ستھرا رکھ سکے۔ صابن تیل لکھھی، خوشبو اور آرائش و زیبائش کی ایسی چیزیں جو ضروری ہوں یا جیسا رواج ہو اس کے مطابق انتظام کرنا مرد کی ذمہ داری ہے۔

عورتیں چونکہ نفاست پسند ہوتی ہیں اس لیے شوہر کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے لباس اور جسم کو صاف ستھرا رکھے تا کہ اس کی بیوی اس سے نفرت نہ کرے۔ رسول اکرم ﷺ جب کسی شخص کو میلا کچیلا پرا گندہ اور بال بکھرے ہوئے دیکھتے تو اسے ہدایت فرماتے کہ وہ صفائی کا اہتمام کرے اور بالوں کی حالت درست کرے۔ حدیث میں آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ صاف اور پاکیزہ ہے اور صفائی و پاکی کو پسند فرماتا ہے۔

2.7 راز داری

میاں بیوی کے ذاتی ازدواجی تعلقات کے بارے میں کسی سے کچھ بیان کرنا اور اپنے راز افشا کرنا سخت گناہ ہے۔

2.8 وفاداری کا اظہار

عام حالات میں تو اظہار وفاداری کیا ہی جاتا ہے لیکن بیوی کسی بیماری کا شکار ہو جائے یا کسی وجہ سے بد شکل ہو جائے تو شوہر اس سے محبت اور وفاداری کے اظہار میں کوتاہی نہ کرے۔ اس قسم کے واقعات اور حادثات اللہ تعالی کی طرف سے ہوتے ہیں جو کسی بھی شخص پر کسی بھی وقت آ سکتے ہیں۔ مشکل حالات میں دلجوئی کرنا بہت ثواب کا کام ہے۔

2.9 والدین سے ملنے کی اجازت

بیوی کے والدین جب اپنی بیٹی سے ملنے کے لیے آئیں تو ان سے عزت و تکریم سے پیش آنا چاہیے ان کی خاطر مدارت کرنی چاہیے ۔ رسول اکرم ﷺ خود حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر جا کر ان سے ملاقات کرتے تھے۔ اگر بیوی اپنے والدین سے ملنے کے لیے جانا چاہے تو شوہر اس کو والدین یا قریبی رشتہ داروں سے ملنے سے نہ روکے۔

2.10 بیوی پر اعتماد اور بھروسہ

گھر کا انتظام میاں بیوی کے ایک دوسرے پر اعتماد کرنے سے چلتا ہے۔ اگر دونوں میں کسی ایک کو بھی دوسرے کے بارے میں بد اعتمادی ہو تو گھر کا سکون ختم ہو جائے گا۔ شوہر کو چاہیے کہ وہ گھر کے اندرونی معاملات بیوی کے سپرد کر دے اور اس پر اعتماد کرے اور گھر سے باہر کے معاملات خود سنبھالے اور اپنی ذمہ داری پوری کرے۔ رسول اکرم ﷺ نے عورتوں کو ہی گھر کا نگران قرار دیا۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں : المرأة رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ زَوْجَهَا )) عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگران ہے۔

PlantUML Diagram