4- شوہر کے حقوق
جہاں کہیں ایک سے زیادہ افراد رہتے ہوں وہاں کسی ایک کو بڑا اور نگران بنا لینے سے نظم وضبط قائم ہو جاتا ہے۔ اسلام نے عائلی زندگی میں شوہر کو گھر کا نگران مقرر کیا ہے ۔ ارشاد ربانی ہے:
الرِّجَالُ قَوْمُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا انْفَقُوا من أموالهم (النساء : 34)
مرد عورتوں کے نگران ہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے بعض کو بعض پر برتری دی ہے اور اس لیے کہ انہوں نے اپنا مال خرچ کیا ہے۔
مرد بدنی اعتبار سے عام طور پر مضبوط ہوتے ہیں جب کہ عورتیں نازک اندام ہوتی ہیں۔ اس لیے قدرتی طور پر مضبوط اور تنومند فرد کو ہی کمزور اور نازک ساتھی کی حفاظت اور نگرانی کرنی چاہیے۔ جب کہ شوہر کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ .
4.1 اطاعت کی حدود
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مرد کا کام محکم چلانا اور عورت کا کام حکم ماننا ہے۔ قرآن حکیم نے جہاں عورتوں کی فرماں برداری کی تعریف کی ہے وہاں یہ بھی کہا ہے کہ گھریلو امور میاں بیوی باہمی مشورے سے طے کیا کریں۔
اطاعت اور فرماں برداری کے بارے میں ایک عام اصول یہ ہے کہ کسی ایک کام میں جس میں اللہ کینافرمانی ہو کسی انسان کی اطاعت کرنا جائز نہیں۔ اگر والدین اپنی اولاد کو یا شوہر اپنی بیوی کو جھوٹ بولنے چوری کرنے بد دیانتی کرنے یا کوئی گناہ کرنے کا کہیں تو ان کی اطاعت کرنا درست نہیں ہوگا۔
رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے :
( لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق)) اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت جائز نہیں۔
4.2 عفت و عصمت کی حفاظت
بیوی کا فرض ہے کہ اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کرے۔ اپنے آپ کو پاک دامن رکھے اور شوہر کے علاوہ کسی سے تعلق نہ رکھے۔ عصمت اور پاک دامنی کی حفاظت کے لیے قرآن حکیم نے پردے کا حکم دیا ہے۔ عورتیں بغیر ضرورت کے گھر سے باہر نہ نکلیں اور جب کسی کام سے گھر سے باہر جانا ہو تو اس طرح بڑی چادر لے کر نکلیں جس میں ان کا جسم چپ جائے۔ خوشبو اور عطر و غیرہ لگا کر گھر سے باہر نہ نکلیں۔ راستہ چلتے اپنی نگاہیں یچی رکھیں اور اپنی زیب و زینت کو ظاہر نہ ہونے دیں۔ چلتے ہوئے اس طرح پاؤں زمین پر نہ ماریں جس سے پہنا ہوا زیور بجنے لگے۔ اگر کسی غیر مرد سے بات کرنے کی ضرورت پڑے تو اپنی آواز میں لوچ اور شیرینی نہ پیدا ہونے دے بلکہ سپاٹ اور کھردرے لہجے میں بات کریں تاکہ کسی کے دل میں کوئی تغلط خیال نہ پیدا ہو۔
4.3 کام کاج میں تعاون
عورت کی حیثیت گھر کی مالکہ کی ہے خادمہ کی نہیں۔ لیکن گھر چلانے کے لیے مل جل کر کام کرنے اور ایک دوسرے سے تعاون کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر چہ گھر کے کام کرنا عورتوں کا فرض نہیں ہے لیکن باہمی تعاون کے بغیر خوشگوار تعلقات پیدا نہیں ہوتے۔ رسول اکرم ﷺ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آنا پینے کے لیے خود چکی چلاتی تھیں۔ مشکیزے میں پانی بھر کر لائیں اور گھر کی صفائی کیا کرتی تھیں۔
4.4 خندہ پیشانی سے پیش آنا
بیوی کا فرض ہے کہ خاوند جب گھر میں داخل ہو تو خندہ پیشانی سے اس کا خیر مقدم کرے۔ محبت بھرے لہجے میں اس کا حال دریافت کرے۔ رسول اکرم ﷺ نے بہترین بیوی کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا :
بہترین بیوی وہ ہے کہ جب تو اسے کام کہے تو تیرا کہا مانے جب تو اس کی طرف دیکھے تو تجھے خوش کر دے اور جب تو گھر سے غائب ہو تو اپنی عزت اور تیرے گھر بار کی حفاظت کرے۔
4.5 شکرگزاری
خوشگوار زندگی کے لیے ضروری ہے کہ عورتیں اپنے خاوندوں کے احسانات کا شکریہ ادا کیا کریں۔ اظہار تشکر سے محبت پیدا ہوتی ہے اور ناشکری نفرت کو جنم دیتی ہے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ایک موقع پر عید کا خطبہ دیتے ہوئے عورتوں کو مخاطب کر کے فرمایا:
صدقہ کیا کرو کیوں کہ میں نے دیکھا ہے کہ دوزخ میں مردوں کی بہ نسبت عورتوں کی تعداد زیادہ ہے۔
4.6 اختلاف کی صورت میں صلح کی کوشش
اگر کسی شخص کی بیوی تند خو بد مزاج اور جھگڑالو ہو تو قرآن حکیم نے اس بارے میں تاکید کی ہے کہ اس کی اصلاح کی کوشش کرو۔ پہلے اسے سمجھاؤ ۔ اگر زبانی سمجھانے سے باز نہ آئے تو اس کا بستر الگ کر دو تا کہ اسے احساس ہو کہ یہ عارضی جدائی مستقل بھی ہو سکتی ہے۔ اگر اس سے بھی کوئی فرق نہ پڑے تو اس کو معمولی بدنی سزا دی جاسکتی ہے۔ جس سے اسے کوئی چوٹ اور زخم نہ آئے چہرے اور بدن کے نازک حصوں پر مارنا منع ہے۔ اگر اس سے اس کی اصلاح ہو جائے تو پھر اس پر زیادتی نہ کرو۔ اگر ان میں سے کوئی کوشش کامیاب نہ ہو تو پھر مرد اور عورت کے خاندانوں سے ثالث مقرر کرو جو ان میں صلح کرا دیں۔
4.7 طلاق کے احکام
اگر صلح کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہو اور دونوں میں علیحدگی ضروری ہو تو دونوں کا اللہ مالک ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے سے مستغنی کر دے گا۔
طلاق کے بارے میں ہمارے ھاں جو رواج ہے وہ قرآن اور سنت کے احکام کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ آنا فانا غصے میں آ کر سوچے سمجھے طلاق دے دینا سخت گناہ کی بات ہے۔ طلاق اس وقت دینی چاہیے اب سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ ہو جائے کہ و جائے کہ اب صلح کی کوئی صورت ممکن نہیں ہے اور پاکی کی حالت میں ایک طلاق دی جائے۔ اس کے بعد عورت اپنے شوہر کے گھر میں ہی عدت پوری کرے ۔ ایک طلاق دینے کا یہ فائدہ ہے کہ اگر میاں بیوی اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنا چاہیں تو عدت کے دوران بغیر نیا نکاح مت زرنے کے بعد نئے سرے سے نکاح کر کے دونوں پھر سے میاں بیوی کے طور پر رہ سکتے ہیں جب کہ شما به جان دینے کے بعد یہ سہولت ختم ہو جاتی ہے۔
خلع اسلام نے طلاق دینے کا حق مرد کو دیا ہے لیکن اگر کسی عورت کی اپنے مرد سے شادی ہوگئی ہے جس سے نباہ مشکل ہے اور وہ مرد اسے طلاق دینے پر بھی آمادہ نہیں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ عورت ساری زندگی عذاب میں بسر کرے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے اسلام نے عورت کو اختیار دیا ہے کہ اگر وہ معقول وجہ سے شوہر کو نا پسند کرتی ہے اور اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو وہ شوہر کو مالی معاوضہ دے کر اس سے طلاق حاصل کر سکتی ہے۔ اس طلاق کو ضلع کہتے ہیں۔ مالی معاوضہ اتنا ہی ہونا چاہیے جتنا کہ شوہرے نکاح کے وقت مہر ادا کیا گیا ہے۔