2 - شخصی اوصاف یوں آپ کی شخصیت خوبیوں اور کمالات کا مجموعہ تھی۔ یہاں آپ ﷺ کی چند ایک صفات کا اس خیال تذکرہ کیا جاتا ہے کہ ہم سب اپنے اندر وہ خوبیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں۔

2 عزم و استقلال عزم و استقلال ایک ایسی صفت ہے کہ اس کے بغیر کسی کام میں کامیابی ممکن نہیں ۔ رسول اللہ ﷺ میں یہ ت بے انتہاء درجے کی تھی۔ ذرا غور کیجئے جب آپ ﷺ نے عرب کے کفرستان میں لا الہ الا اللہ کی صدا بلند ہ آپ بالکل اکیلے تھے لیکن کبھی آپ کو ایک لمحے کے لیے بھی یہ خیال نہیں آیا کہ میں اکیلا ہوں اتنا بڑا کیسے کر سکوں گا ۔ تیرہ برس تک آپ نے مکہ میں ہر طرح کی سختیاں برداشت کیں لیکن آپ کے ملے اور عزم میں ذرا بھی فرق نہیں آیا۔

ایک موقع پر قریش نے آپ ﷺ کے ہمدرد اور غم گسار چا ابو طالب کو مجبور کیا کہ وہ آپ ﷺ کی حمایت سے ت بردار ہو جائیں۔ انہوں نے آپ کو بلا کر کہا : بھتیجے ! مجھ پر اتنا بوجھ نہ ڈالو جسے میں اُٹھا نہ سکوں۔ چچا کی اس بات کے بعد اس قبائلی مشاعرے میں آپ کا کوئی حمایتی نہیں رہا تھا لیکن آپ نے جواب دیا :اللہ کی قسم ! اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند لا کر رکھ دیں تو بھی میں اسلام کی تبلیغ سے نہیں رکوں گا ۔ یا تو یہ کام مکمل ہو گا یا اس میں میری جان چلی جائے گی"۔ رسول اکرم ا کیلئے لا إله إلا اللہ کا پیغام لے کر کھڑے ہوئے اور آج دنیا میں مسلمانوں کی آبادی ڈیڑھ ارب سے زائد ہے۔ کیا ہمیں بھی اس بات کی فکر ہوئی ہے کہ دنیا کی باقی ساڑھے چار ارب آبادی تک لا اله الا اللہ کا پیغام پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے۔ دنیا میں کتنے ہی لوگ ہیں جن تک اسلام کا صحیح پیغام نہیں پہنچ سکا۔ آئیے ! آج سے اپنے حصے کے کام کے لیے اپنے آپ کو تیار کریں۔

نزوہ حنین میں بنو ہوازن کے تیر اندازوں نے اچانک کمین گاہوں سے نکل کر مسلمانوں کی فوج پر اتنی شدت سے تیروں کی بارش برسائی کہ اکثر لوگوں کے پاؤں اکھڑ گئے۔ گفتی کے چند صحابہ کرام کے علاوہ آپ ﷺ کے ساتھ کوئی نہ رہا۔ دشمن نے اپنے تیروں کا رخ آپ ﷺ کی طرف پھیر دیا تو آپ ﷺ اپنی سواری سے نیچے اتر آئے اور فرمایا : میں خدا کا سچا رسول ہوں اور عبد المطلب کا پوتا ہوں۔ یعنی مجھ جیسا شخص میدان سے بھاگ نہیں سکتا۔ آپ کے ثابت قدم رہنے کی وجہ سے اہل اسلام نے یہ ہارا ہوا معرکہ دوبارہ جیت لیا۔ آپ کے عزم و استقلال سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر ہم زندگی میں کامیابی چاہتے ہیں تو اپنی زندگی کے اچھے مقاصد متعین کریں اور پھر ان کے حصول کے لیے مستقل مزاجی کے ساتھ محنت کریں۔

2.2 شجاعت آپ ﷺ کی زندگی بہادری اور شجاعت کے واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ لڑائی کے میدان میں بڑے بڑے بہادر آپ ﷺ کے پاس آکر پناہ لیتے ۔ حضرت علی ہے جنہوں نے بڑے بڑے معرکے سر کیئے، کہتے ہیں کہ جب بدر میں زور کا رن پڑا تو ہم لوگوں نے آپ ﷺ ہی کی آڑ میں آ کر پناہ لی۔ایک بار مدینہ منورہ میں شور ہوا کہ دشمن آگئے ۔ لوگ مقابلے کے لیے تیاری کرنے لگے۔ لیکن آپ ﷺ نے نہ کسی کا انتظار کیا اور نہ گھوڑے پر زین کسی گھوڑے کی نگی پیٹھ پر سوار ہو کر دور دور تک تمام خطروں کے مقامات میں گشت لگا آئے اور جب تک لوگ تیار ہوئے آپ کا واپس تشریف لے آئے اور لوگوں کو تسلی دی کہ کوئی خطرہ نہیں ہے۔

2.3 سخاوت حضور اکرم ﷺ کی سخاوت کا یہ حال تھا کہ حضرت عبداللہ بن عباس اللہ کہتے ہیں کہ آپ " چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ سخی تھے۔ جس طرح ہوا چل رہی ہو تو وہ ہر شخص تک پہنچتی ہے اسی طرح آپ اتنے بھی تھے کہ کبھی کسی کو یہ نہیں کہتے تھے۔ اگر کوئی سائل آپ ﷺ کے پاس آتا تو آپ ﷺ کے پاس اس وقت کچھ نہ بھی ہوتا تو قرض لے کر سائل کی ضرورت پوری فرماتے۔ غزوہ حنین میں تقریبا چھ ہزار مرد اور عورتیں قید ہو کر آئے جو اس وقت کے قانون کے مطابق ہمیشہ کے لیے لونڈی غلام بنائے جا سکتے تھے مگر آپ ﷺ نے ان سب کو رہا کر دیا۔ اسی غزوہ میں جو مال غنیمت ملا تھا اس میں چوبیس ہزار اونٹ چالیس ہزار بکریاں اور چار ہزار اوقیہ (اوقیہ = 119 گرام تقریبا ) چاندی بھی شامل تھی آپ نے یہ تمام مال لوگوں میں تقسیم فرما دیا اور کئی لوگوں کو کئی کئی سو اونٹ مرحمت فرمائے ۔ ایک مرتبہ ایک شخص کو آپ نے دو پہاڑوں کے درمیان پھیلا ہوار یوز عنایت فرما دیا۔ وہ شخص اپنی قوم میں جا کر کہنے لگا اسلام لے آؤ کیونکہ حضرت محمد ﷺ اتنا دیتے ہیں کہ اس کے بعد غریب ہونے کا ڈر نہیں رہتا۔ ایک مرتبہ آپ کے پاس ستر ہزار درہم کی رقم آئی۔ آپ نے مسجد میں چنائی پر پھیلا دی اور جو شخص آتا گیا آپ اسے دیتے گئے یہاں تک کہ جب وہ ختم ہو گئی تو آپ گھر تشریف لے گئے۔ ایک مرتبہ فدک کے رئیس نے بہت سا مال بھیجا۔ آپ ﷺ دن بھر تقسیم فرماتے رہے پھر بھی بیچ رہا۔ آپ نے رات مسجد میں گزاری اور اگلے روز جب تک مال ختم نہیں ہوا آپ گھر تشریف نہیں لے گئے۔آپ کی طرف سے عام اعلان تھا کہ جو شخص مر جائے اس کا ترکہ وارثوں کے لیے ہے اور جو قرض دینا ہو وہ میرے ذمے ہے۔

2.4 سچائی حضرت محمد ﷺ کی سچائی اور راست گفتاری اس حد تک مشہور تھی کہ اعلان نبوت سے پہلے ہی عرب میں آپ صادق (سما) کے لقب سے مشہور تھے۔ نبوت کے اعلان کے بعد جب قریش کے بڑے بڑے سردار آپ کے جانی دشمن ہو گئے اور آپ ﷺ کو طرح طرح کی اذیتیں دیتے ۔ دیتے رہے لیکن کسی نے آپ کے ﷺ پر جھوٹ بولنے کا الزام نہیں لگا یا بدترین دشمن بھی اس بات سے پریشان تھے کہ جس شخص نے زندگی بھر جھوٹ نہیں بولا اس کے بارے میں لوگوں کو کیسے یقین دلا میں کہ اب اس نے اللہ تعالی کے بارے میں جھوٹ بولنا شروع کر دیا ہے۔ ایک روز قریش کے بڑے بڑے سردار بیٹھے تھے اور آپ کا ذکر ہو رہا تھا۔ نضر بن حارث جو آپ کا شدید دشمن لیکن جہاں دیدہ سردار تھا کہنے لگا : " اے قریش اتم پر جو مصیبت آئی ہے اب تک تم اس کی کوئی تدبیر نہ نکال سکے ۔ محمد تمہارے سامنے بچہ سے جوان ہوا وہ تم میں سب سے زیادہ پسندیدہ سچا اور امانت دار تھا۔ اب جب کہ اس کے بالوں میں سفیدی آ رہی ہے اس نے تمہارے سامنے یہ باتیں پیش کیں تو تم کہتے ہو وہ جادوگر ہے کا ہن ہے، شاعر ہے دیوانہ ہے۔ خدا کی قسم ! میں نے محمد کی باتیں سنی ہیں ، محمد میں ایسی کوئی بات نہیں۔ ابو جہل کہا کرتا تھا: محمد ! میں تم کو جھوٹا نہیں کہتا البتہ جو کچھ کہتے ہو ان کو صیح نہیں سمجھتا۔حضور ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ اپنے خاندان کو اسلام کی دعوت دیں تو آپ ایک پہاڑ پر چڑھ گئے اور پکار کر لوگوں کو اکٹھا کیا۔ پھر فرمایا: اے گروہ قریش ! اگر میں تم سے یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بہت بڑا لشکر پڑاؤ ڈالے ہوئے ہے اور کسی بھی وقت موقع پا کر تم پر پل پڑے گا تو کیا تم یقین کر لو گے؟" سب نے کہا کیوں نہیں؟ ہم نے آپ کو بھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا۔ رسول اکرم ﷺ نے جب بادشاہوں کو تبلیغی خطوط لکھے تو آپ ﷺ نے روم کے بادشاہ قیصر کو بھی مخط لکھا۔ قیر نے آپ ﷺ کے حالات جانے کے لیے درباریوں سے کہا کہ اگر جاز کا کوئی شخص ہمارے شہر میں آیا ہوا ہے تو اسے میرے پاس لاؤ۔ اتفاق سے ابوسفیان جو اس وقت مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن تھے وہاں گئے ہوئے تھے۔ انہیں دربار میں لے جایا گیا ۔ قیصر روم نے ان سے پوچھا: تمہارے ہاں جس شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے کیا اس دعوے سے پہلے اس نے کبھی جھوٹ بولا ہے؟“ ابوسفیان نے کہا ”نہیں“ تو قیصر نے کہا: جس شخص نے کبھی بندوں کے معاملات میں جھوٹ نہیں بولا اس سے कैसे توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ اللہ پر جھوٹ باندھے گا۔ ہم میں ہر ما سے ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ لوگ اس کی بات پر اعتبار کریں جو کچھ وہ کہے اس کو درست ما رست مانا جائے۔ اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم ہر طرح کے جھوٹ کو اپنی زندگی سے مکمل طور پر نکال دیں۔ بات کریں تو ہمیشہ سچ بولیں، خواہ اس میں نقصان ہی ہو۔ کسی کام میں جھوٹ کا دخل نہ ہو ۔ غرض اپنی ساری زندگی کو سچائی کے سانچے میں ڈھال لیں۔ ہر شخص ہم پر اعتبار کرنے لگے گا۔

2.5 سادگی اور تواضع آنحضرت ﷺ کو نمود و نمائش سے غرت تھی، آپ ﷺ سادگی پسند فرماتے لیکن اس کے ساتھ ہی صفائی اور نفاست کا بہت اہتمام فرماتے تھے۔ کھانے پینے اوڑھنے بچھونے اٹھنے بیٹھنے کی چیز میں کوئی تکلیف نہیں تھا۔ جو سامنے آتا تناول فرما لیتے ۔ اگر کوئی چیز پسند نہ ہوتی تو اس میں عیب نہ نکالتے ۔ زمین پر چٹائی پر فرش پر جہاں جگہ ملتی بیٹھ جاتے ۔ مسجد سے اٹھ کر گھر تشریف لے جاتے تو کبھی کبھی ننگے پاؤں چلے جاتے اور جوتا وہیں چھوڑ جاتے ۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ واپس تشریف لائیں گے۔ ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت علی ہے کی دعوت کی اور کھانا پکوا کر گھر بھیجا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ بھی تشریف لاتے اور ہمارے ساتھ کھاتے تو خوب ہوتا ۔ حضرت علی سے گئے اور آپ ﷺ سے عرض کی ۔ آپ ﷺ تشریف لے آئے لیکن دروازے پر پہنچے تو یہ دیکھ کر کہ گھر میں دیواروں پر پردے لٹکے ہوئے ہیں واپس چلے گئے پوچھنے پر فرمایا کہ نبی کے شایان شان نہیں کہ ایسے گھر میں داخل ہو جہاں مکان کو پردوں سے آراستہ کیا گیا ہو۔ آپ ﷺ اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرنا پسند فرماتے ۔ اگر چہ صحابہ کرام اس قدر جاں نثار تھے کہ ہر وقت خدمت کے لیے تیار رہتے تھے لیکن آپ دوسروں سے خدمت لینا پسند نہیں فرماتے تھے۔ ایک بار ایک شخص نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ آپ گھر میں کیا کیا کرتے تھے ؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا جواب تھا ۔ آپ گھر کے کام کاج میں مصروف رہتے تھے۔ کپڑوں میں اپنے ہاتھ سے پیوند لگا لیتے گھر کی صفائی خود کر لیتے دودھ دوھ لیتے بازار سے سودا سلف لے آتے، جوتی پھٹ جاتی تو خود گانٹھ لیتے چمڑے کے ڈول میں ٹانکے لگا دیتے اونٹ کو اپنے ہاتھ سے باندھ دیتے اس کو چارہ دیتے اور غلام کے ساتھ مل کر آٹا گوندھتے تھے۔

2.6 امانت و دیانت امانت و دیانت رسول اللہ ﷺ کے اوصاف میں سے ایک خاص وصف تھا۔ نبوت ملنے سے پہلے ہی آپ ﷺ کی دیانت داری کی اس قدر شہرت تھی کہ لوگ آپ کو "امین" کہتے تھے۔ نبوت ملنے کے بعد قریش آپ کی جان کے دشمن ہو گئے لیکن اپنی قیمتی اشیاء کی حفاظت کے لیے انہیں آپ سے زیادہ اعتبار کسی پر نہیں تھا۔ حتی کہ ہجرت مدینہ کی رات جب کچھ لوگ آپ کے گھر کا محاصرہ کیسے ہوئے تھے کہ آپ ﷺ جب باہر نکلیں تو معاذ اللہ آپ کو قتل کر دیا جائے اس وقت بھی ان دشمنوں کی امانتیں آپ ﷺ کے گھر میں محفوظ تھیں اور آپ ﷺ نے ہجرت کرتے وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس لیے پیچھے چھوڑ دیا کہ وہ لوگوں کی امانتیں انہیں واپس کر کے مدینہ منورہ آجائیں۔ عرب میں سائب نام کے ایک تاجر تھے۔ وہ مسلمان ہو کر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ لوگوں نے آپ ﷺ سے ان کا تعارف کرانا چاہا تو آپ ﷺ نے فرمایا میں ان کو تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ سانپ نے کہا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں' آپ ) میرے تجارتی شریک کار تھے اور آپ ﷺ نے ہمیشہ معاملات صاف رکھے۔ ایک مرتبہ مدینہ منورہ کے باہر آ کر ایک مختصر سا قافلہ ٹھہرا۔ ان کے ساتھ ایک خوبصورت سرخ رنگ کا اونٹ تھا۔ اتفاقا آپ ﷺ اس طرف سے گذرے تو آپ ﷺ کو اونٹ پسند آ گیا۔ آپ ﷺ نے قیمت پوچھی ۔ ان لوگوں نے جو قیمت بتائی آپ نے وہی منظور کر لی اور اونٹ لے کر شہر کی طرف روانہ ہو گئے ۔ آپ ﷺ کے چلے جانے کے بعد لوگوں کو خیال آیا کہ ہم نے اپنا قیمتی اونٹ بغیر جان پہچان کے ایک ناواقف آدمی کے سپرد کر دیا۔ اس پر سب کو ندامت ہوئی۔ قافلے میں ایک دانش مند خاتون بھی تھی اس نے لوگوں کی پریشانی دیکھی تو کہا مطمئن رہو میں نے آج تک ایسا روشن چہرہ نہیں دیکھا ۔ شخص کسی سے دعا فریب نہیں کر سکتا۔ شام ہوئی تو حضور ﷺ کی طرف سے اونٹ کی قیمت اور قافلے کے لیے کھانا پانچ گیا۔غزوہ حنین میں آپ ان کو کچھ اسلحہ کی ضرورت پڑی۔ صفوان اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے اللہ کے پاس بہت سی زرہیں تھیں ۔ آپ نے ان سے کچھ زر میں عار بنا لیں اور فرمایا اگر ان میں سے کوئی تلف ہو گئی تو تاوان دوں گا۔ چنانچہ انہوں نے تہیں چالیس زر میں عار بنا دے دیں جنہین سے واپسی پر جب سامان کا جائزہ لیا گیا تو کچھ اور ہیں کم تھیں ۔ آپ ﷺ نے صفوان سے کہا تمہاری چند زر میں کم ہیں ان کا معاوضہ لے اور بعنوان نے کہا اب اس کی ضرورت نہیں۔ اب میرے دل کی حالت بدل گئی ہے یعنی اب میں مسلمان ہو گیا ہوں ۔ امانت کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا (( لا إيمان لمن لا امانة له )) جو شخص امانت دار نہیں وہ ایمان دار ہیں۔

2,7 شرم وحیاء آنحضرت اللہ اس قدر شر پیلے تھے کہ حدیث میں آتا ہے کہ آپ کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ حیادار تھے۔ آپ نے بھی کسی کے ساتھ بد زبانی نہیں کی۔ بازاروں میں جاتے تو چپ چاپ گزر جاتے ۔ بھی قرتا ہے۔ بار کر نہ ہفتے ۔ صرف تیم فرماتے ۔ کوئی بات نا گوار ہوتی تو بھی لحاظ کی وجہ سے زبان سے کچھ نہ فرماتے۔ ایک بار کوئی صاحب اس طرح کا لباس پنجان کر آپ کی خدمت میں آئے جو نا مناسب تھا۔ جب وہ پہلے گئے تو آپ نے ایک اور شخص سے کہا کہ ان سے کہہ دیں کہ اس طرح کا لباس نہ پہنا کریں ۔ وہ کہنے لگے یا رسول اللہ ! آپ نے خود کیوں نہیں روک دیا ۔ فرمایا " مجھے منہ پر انہیں ایسا کہتے ہوئے حیاء آتی تھی"۔ غرب میں گھروں میں بیت الخلانہیں تھے۔ لوگ باہر کھیتوں میں رفع حاجت کے لیے جاتے تھے لیکن اس موقع پر پردہ کرنے یا اوٹ میں بھیجنے کا رواج نہیں تھا لوگ ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ جاتے اور باتیں بھی کرتے رہتے ۔ حضور اکرم نے اس سے منع فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ اس سے اللہ تعالی ناراض ہوتا ہے۔آپ کا اپنا معمول تھا کہ آپ آبادی سے دو دو تین تین میل دور نکل جاتے تھے یہاں تک کہ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ۔

2.8 تدبیر و احتیاط رسول اکرم ﷺ انتہائی بہادر تھے اور اللہ کی ذات پر بے پناہ تو کل کرنے کے باوجود احتیاط و تدبیر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے تھے۔ ہر کام کرنے اور ہر فیصلہ کرنے سے پہلے اس کے تمام پہلوؤں پر غور فرماتے مشورے کرتے اور نتائج پر نخور کرنے کے بعد کام کی ایک تفصیل طے کر لیتے تھے۔ آپ ﷺ کے غزوات کی تفصیل پڑھیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ﷺ نے جنگیں جیتنے کے لیے ایسی اعلیٰ تدابیر اختیار کیں جن کا کوئی دوسرا سپہ سالار تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ جنگ بدر کی لڑائی میں آپ ﷺ نے ایسی جگہ منتخب کی جہاں پشت کی طرف قدرتی دفاعی حصار ریت کے بڑے ٹیلوں کی شکل میں تھا۔ میدان بدر میں پانی کا کنواں موجود تھا اور لڑائی کے لیے بہت مناسب جگہ تھی ۔ غزوہ احد میں آپ ﷺ نے احد پہاڑ کو اپنی پشت پر رکھ کر قدرتی دفاع کا انتظام فرمایا۔ اس میں . صرف ایک درہ تھا جس سے حملہ ہو سکتا تھا اس پر تیر اندازوں کا دستہ متعین کر دیا۔ اگر وہ دستہ اپنی جگہ نہ چھوڑتا تو مسلمانوں کو نقصان نہ اٹھانا پڑتا۔ غزوہ خندق میں آپ ﷺ نے مدینہ منورہ کی ایک جانب جدھر سے حملہ ہو سکتا تھا خندق کھدوا دی جس سے مدینہ محفوظ ہو گیا ۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ تدبیر کرنا تو کل کے خلاف ہے۔ آپ ﷺ کے اس فرمان ہے کہ : اونٹ کا گھٹنا باندھ دو پھر تو کل کرو۔ یہ غلط نہی دور ہو جانی چاہیے یعنی پہلے اپنی پوری تدبیر اختیار کر لو پھر نتائج اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دو۔

PlantUML Diagram