4- معاملاتی اوصاف آپ ﷺ کی وہ خوبیاں جن کا تعلق دوسروں کے ساتھ معاملات سے تھا بے شمار تھیں ۔ اسلام ایک ایسا دین ہے جس میں انسان کی صرف ذاتی نیکی ہی نہیں دیکھی جاتی بلکہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ کوئی شخص دوسروں کے لیے کتنا اچھا ہے۔ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے : (( خير الناس من ينفع للناس)) بہترین شخص وہ ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے۔ قرآن اور حدیث میں باہمی تعلقات کو خوشگوار بنانے اور ایک دوسرے کے کام آنے کے بارے میں بے شمار ہدایات ہیں۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ کوئی مسلمان نہ تو دوسرے مسلمان کی توہین کرتا ہے نہ طعنہ دیتا ہے نہ چغلی کھاتا ہے نہ کسی کے عیب تلاش کرنے میں لگا رہتا ہے نہ کوئی نا پسندیدہ نام ڈالتا ہے نہ غیبت کرتا ہے اور نہ ہی بہتان باندھتا ہے۔ بلکہ اگر مسلمانوں میں باہمی اختلاف ہو جائے تو صلح و صفائی کرانے کی کوشش کرتا ہے۔ مسلمان نہ تو بد عہدی کرتا ہے نہ کسی پر ظلم کرتا ہے نہ کسی کا ظلم سہتا ہے نہ بد دیانتی کرتا ہے اور نہ ہی کسی سے نا انصافی کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے معاملات کے ذریعے ہمیں بتایا کہ ایک اچھے مسلمان کو دوسروں کے ساتھ کسطرح برتاؤ کرنا چاہیے۔ اپنے دوستوں سے دشمنوں سے چھولوں اور بڑوں سے اچھے اور برے لوگوں سے غرض ہر طرح کے افراد سے برتاؤ کا ایسا معیار قائم فرمایا جو ہمارے لیے نمونہ ہے۔ ذیل میں ہم چند ایک اہم پہلوؤں کا مطالعہ کریں گے۔

4.1 رحمت عام قرآن حکیم نے رسول اللہ ﷺ کو رحمتہ للعالمین کے لقب سے یاد کیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: وما ارسلنک الا رحمة للعلمين ) (النميا (107) ہم نے آپ کو سب جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔ آپ ﷺ اپنوں کے لیے تو رحمت تھے ہی دشمنوں کے لیے بھی رحمت تھے۔ ہجرت سے پہلے مکہ والوں نے آپ ﷺ کو اتنی اذیتیں دیں کہ اگر آپ اللہ ان کے لیے بد دعا فرماتے تو وہ تباہ و برباد ہو جاتے لیکن جب کبھی آپ سے کسی مسلمان نے بھی دشمنوں کے حق میں بددعا کرنے کا کہا تو آپ ﷺ نے فرمایا: میں دنیا کے لیے لعنت نہیں رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں"۔ قریش مکہ نے تین سال تک آپ ﷺ کو شعب ابی طالب میں محصور رکھا۔ کوشش کرتے کہ محلے کا ایک دانہ بھی آپ تک نہ پہنچ سکے۔ اس دوران میں مسلمان درختوں کے پتے گھاس کی جڑیں اور ہڈیاں اُبال کر کھانے پر مجبور ہو گئے تھے۔ اس حال میں بھی جب مکہ والوں پر قحط آیا ابو سفیان نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ : محمد (ﷺ) تمہاری قوم ہلاک ہو رہی ہے خدا سے دعا کرو کہ یہ مصیبت دور ہو۔آپ ان کے لیے استغفار کریں چاہے نہ کریں ۔ اگر آپ ستر بار استغفار کریں گے تو بھی اللہ ان کو ہرگز نہیں بخشے گا۔

4.2 عدل وانصاف رسول اکرم ا عدل و انصاف کے پیکر تھے۔ انصاف کے معاملے میں دوست دشمن اپنے بیگانے کسی میں کوئی فرق روا نہیں رکھتے تھے ۔ انصاف کے سلسلے میں آپ ﷺ نے اپنے آپ کو بھی ہمیشہ دوسرے لوگوں کے برابر رکھا۔ ایک بار کسی جنگ کے موقع پر آپ صفیں درست کر رہے تھے ایک صاحب صف سے باہر نکلے ہوئے تھے آپ کے ہاتھ میں جو چھڑی تھی اس سے ٹھوکا دے کر آپ ﷺ نے ان کو صف میں برابر کھڑا ہونے کو کہا ۔ وہ صاحب بگڑ گئے کہ آپ ﷺ نے مجھے چھڑی چھوٹی ہے میں بدلہ لوں گا۔ آپ ﷺ نے چھیڑی اس کے ہاتھ میں دے دی اور فرمایا کہ بدلہ لو۔ وہ صاحب کہنے لگے ۔ آپ کے بدن پر کرتا ہے میرا بدن ننگا تھا۔ آپ ﷺ نے فورا اپنا کرتا اوپر کر دیا تا کہ وہ بدلہ لے سکیں ۔ اگر چہ وہ صاحب آپ اللہ سے لپٹ گئے اور بدلہ نہیں لیا لیکن آپ ﷺ نے بدلہ دینے میں کوئی حیل و حجت نہیں فرمائی۔ آپ عدل و انصاف میں کسی چھوٹے بڑے میں فرق نہیں کرتے تھے۔ ایک مرتبہ بنو مخزوم کے معزز قبیلے کی ایک عورت فاطمہ نے چوری کی۔ خاندان کے لوگوں نے حضرت اسامہ سے سے جو حضور اکرم ﷺ کو بہت پیارے تھے سفارش کرنے کو کہا۔ جو نبی حضرت اسامہ نے سفارش کے لیے زبان کھولی آپ کا رنگ بدل گیا اور ناراض ہو کر فرمایا اسامہ ! کیا اللہ کے حق میں سفارش کرتے ہو۔ پھر آپ ﷺ نے لوگوں کو جمع کر کے خطبہ دیا اور فرمایا: تم سے پہلے لوگ اس وجہ سے تباہ ہو گئے کہ جب قوم کا کوئی بڑا آدمی جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی عام آدمی جرم کرتا تو اسے سزا دیتے ۔ اللہ کی قسم ! اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔پھر آپ ا نے اس عورت کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔

4.3 محبت اور ہمدردی آپ ﷺ کے دل میں انسانوں سے بے پناہ محبت اور ہمدردی کا جذبہ موجود تھا۔ قرآن حکیم نے آپ ﷺ کی اس صفت کو خاص طور پر بیان کرتے ہوئے کہا: فما رحمة من الله لنتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَا نُفَضُّوا مِنْ حولک (آل عمران (159) اللہ کے فضل سے آپ ﷺ لوگوں کے لیے نرم دل ہیں ۔ اگر آپ سخت مزاج ' سخت دل ہوتے تو سب لوگ آپ ﷺ سے دور ہو جاتے"۔ آپ اس بات کی کوشش کرتے کہ محفل میں کوئی ایسی بات نہ کی جائے اور نہ سنی جائے جس سے کسی کے بارے میں بدگمانی پیدا ہو۔ ایک موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا: میرے سامنے دوسروں کی ایسی باتیں نہ کیا کرو جنہیں سن کر میرے دل میں ان کے متعلق کوئی کدرورت پیدا ہو جائے کیوں کہ میں چاہتا ہوں کہ میں سب سے صاف دل کے ساتھ ملوں۔ ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن مسعود بڑے نے وہ افراد کی شکایت آپ کو پہنچائی آپ نے فرمایا اس طرح کی باتیں مجھ تک نہ پہنچایا کرو۔ آپ اپنے پاس بیٹھنے والوں کو ترغیب دلاتے تھے کہ دوسروں کے حق میں ہمیشہ اچھی بات کیا کروں۔ اگر کوئی شخص کسی وجہ سے کسی کے بارے میں اچھی بات نہ کہہ سکے تو اس کی برائی نہ کرے بلکہ خاموش رہے۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا:اخلاق کی بلندی یہ نہیں کہ جو شخص تم سے اچھے طریقے سے پیش آئے اس سے اچھے طریقے سے پیش آؤ اور جو تمہارے ساتھ برائی کرے تو اس سے برائی کرو بلکہ اخلاق کی بلندی یہ ہے کہ ہر شخص سے بھلائی کرو خواہ وہ تمہارے ساتھ بھلائی کرے یا برائی“۔

4.4 ایثار آپ ﷺ کی جس خوبی کا ہر موقع پر اثر نظر آتا ہے اور جو آپ کا سب سے نمایاں وصف تھا وہ ایثار تھا۔ ایثار کا مطلب ہے دوسروں کو اپنے آپ پر تربیع دینا۔ آپ کو اپنی اولاد سے بے انتہاء محبت تھی اور ان میں سے بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اس قدر عزیز تھیں کہ جب وہ آئیں آپ کھڑے ہو جاتے ان کی پیشانی پر بوسہ دیتے اور اپنی نشست پر بٹھاتے۔ لیکن حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر کا حال یہ تھا کہ گھر میں کوئی خادمہ نہ تھی ۔ خود چکی پیستیں، جس سے ہتھیلیاں گھس گئی تھیں، خود پانی کی مشک بھر کر لاتیں جس کے اثر سے جسم پر نیل پڑ گئے تھے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی کہ فلاں غزوہ میں جو کنیزیں آئی ہیں ان میں سے ایک دے دیں تاکہ گھر کے کام کاج میں مددمل سکے آپ ﷺ نے فرمایا کہ ابھی بدر کے قیموں کا کوئی انتظام نہیں ہو سکا۔ جب تک ان کا انتظام نہ ہو میں تمہیں خادمہ نہیں دے سکتا۔ ایک شخص نے اپنے باغ حضور اکرم ﷺ کی نذر کر دیئے آپ نے سب خیرات کر دیئے جو کچھ ان سے پیدا ہوتا غرباء اور مساکین میں تقسیم کر دیا جاتا۔ ایک وفعہ ایک عورت نے ایک چادر پیش کی ۔ آپ کو ضرورت تھی آپ نے لے لی ۔ ایک صاحب جو حاضر خدمت تھے انہوں نے کہا کیا اچھی چادر ہے ۔ آپ ﷺ نے اتار کر انہیں دے دی اور اس بات کا خیال نہیں کیا کہ مجھے اس کی زیادہ ضرورت ہے۔آپ ﷺ کی حیات طیبہ اس نوعیت کے واقعات سے بھری ہوئی ہے کہ خلق خدا میں سونا چاندی غلہ پھل اور ہر قسم کی چیز میں تقسیم فرما رہے تھے اور گھر میں فاقہ ہے۔

4.5 مساوات آپ کی نظر میں امیر غریب اور آقا و غلام برابر تھے۔ سلمان فارسی بلال حبشی اور صہیب رومی ( ) غلام رہ چکے تھے لیکن آپ ﷺ کی بارگاہ میں ان کا رتبہ روسائے قریش سے کم نہ تھا ۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق سے فرمایا کہ جس نے میرے ان ساتھیوں کو ناراض کیا اس نے اللہ کو ناراض کیا۔ غزوہ بدر میں دوسرے قیدیوں کے ساتھ آپ ﷺ کے چچا عباس بھی گرفتار ہو کر آئے ۔ قیدیوں کو فدیہ لے۔ کر رہا کیا جا رہا تھا ۔ بعض انصار نے اس خیال سے کہ رسول اللہ ﷺ کے چا ہیں۔ عرض کی یا رسول اللہ (ﷺ) اجازت دیں تو ہم عباس کا فدیہ معاف کر دیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہر گز نہیں ۔ ایک درہم بھی نہیں۔ مساوات کے اس عام اصول کا یہ مطلب نہیں تھا کہ ہر شخص کو ایک لاٹھی سے ہانکا جائے بلکہ لوگوں کے تقویٰ دینی مرتبے اور ان کی عمر کا خیال بھی رکھا جاتا۔ مثلا آپ ﷺ کا ارشاد ہے: جو شخص سفید بالوں والے مسلمان عالم قرآن اور انصاف دوست حکمران کی عزت کرتا ہے وہ در حقیقت اللہ کا اکرام کرتا ہے۔ ایک مرتبہ حضرت سعد بن معاذ ہ ایک مجلس میں بلائے گئے۔ ان کے آنے پر ان کی عزت افزائی کے لیے آپ نے مجلس میں موجود صحابہ کرام پینے سے فرمایا کہ اپنے سردار کے احترام میں کھڑے ہو جاؤ۔ لیکن اپنے لیے آپ کسی کو کھڑے ہونے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔

4.6 دوسروں کے جذبات کا احترام دوسرے لوگوں سے معاملات کرتے ہوئے آپ اللہ ان کے جذبات کا ہمیشہ خیال رکھتے تھے کبھی کسی پر آپ ﷺ نے اپنی مرضی مسلط نہیں کی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنی کم عمری کی وجہ سے کھیل کی طرف میلان رکھتی تھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیاں ان کے ساتھ کھیلنے کے لیے کا شائنہ نبوی میں آ جاتی تھیں۔ آپ نے کبھی اس پر ناگواری کا اظہار نہیں فرمایا۔ اپنے جاں نثاروں کے جذبات کا اس قدر خیال فرماتے کہ ارشاد فرمایا: میں نماز لمبی کرنا چاہتا ہوں لیکن پیچھے کسی بچے کے رونے کی آواز آتی ہے تو اس کی ماں کی بے چینی کا خیال کر کے نماز مختصر کر دیتا ہوں"۔ اسی طرح آپ ﷺ جب وعظ فرماتے تو مختصر وعظ فرماتے ۔ آپ ﷺ کے مواعظ اور خطبے صحابہ کرام نے لفظ بہ لفظ نقل کیے ہیں ان کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کے طویل خطبے بھی دس پندرہ منٹ سے زیادہ کے نہ ہوتے تھے۔ جب آپ کسی شخص کو کسی علاقے میں مبلغ اور دائی بنا کر یا عامل اور حکمران بنا کر بھیجتے تو یہ تاکید فرماتے: لوگوں کو خوشخبری دے کر اسلام سے مانوس کرانا انہیں ڈرا دھمکا کر متنفر نہ کر دینا۔ ان کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ۔ مشکلات نہیں".

4.7 بچوں پر شفقت بچوں پر آپ ﷺ غیر معمولی شفقت فرماتے ۔ آپ ﷺ کا معمول تھا کہ سفر سے تشریف لاتے تو راستے میں جو بچے ملتے ان میں سے کسی کو اپنے ساتھ سواری پر آگے پیچھے بٹھا لیتے ۔ راستے میں آپ ﷺ کو بچے مل جاتے تو ان کو خود سلام کرتے۔آپ کا معمول تھا کہ جب فصل کا نیا میوہ آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں پیش کیا جاتا تو مجلس میں جو سب سے زیادہ کم عمر بچہ ہوتا اس کو عنایت فرما تے۔ بچوں کو چومتے پیار کرتے ۔ ایک مرتبہ اسی طرح آپ ﷺ بچوں کو پیار کر رہے تھے کہ ایک دیہاتی آیا۔ اس نے کہا آپ لوگوں کے بچوں کو پیار کرتے ہیں، میرے دس بچے ہیں مگر میں نے آج تک ان میں سے کسی کو پیار نہیں کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اگر اللہ تعالی تمہارے دل سے محبت چھین لے تو میں کیا کر سکتا ہوں ۔ ایک صحابی سے کہتے ہیں کہ بچپن میں انصار کے کھجوروں کے باغات میں چلا جاتا اور پتھر مار کر کھجوریں گراتا۔ ایک روز پکڑا گیا اور لوگ مجھے آپ ﷺ کی خدمت میں لے گئے۔ آپ ا نے پوچھا، پھر کیوں مارتے ہو۔ میں نے کہا کھجوریں کھانے کے لیے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا جو خود بخود گر جائیں ان کو اٹھا کر کھا لیا کرو پتھر نہ مارا کرو یہ کہ کر میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور دُعا دی۔ ایک دفعہ ایک نہایت غریب عورت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی ۔ اس کے ساتھ دو چھوٹی چھوٹی لڑکیاں تھیں۔ اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس کچھ نہ تھا۔ ایک کھجور کہیں پڑی ہوئی مل گئی، وہی اٹھا کر دے دی۔ عورت نے کھجور کے دوٹکڑے کیے اور دونوں میں برابر تقسیم کر دی۔ آنحضرت ﷺ باہر سے تشریف لائے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ واقعہ سنایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جس کو خدا اولاد کی محبت میں ڈالے اور وہ ان کا حق بجالائے وہ دوزخ سے محفوظ رہے گا۔

4.8 غلاموں سے محبت آنحضرت ﷺ غلاموں کے ساتھ خصوصی شفقت سے پیش آتے ۔ آپ ﷺ نے لوگوں کو اس سے روک دیا تھا کہ کوئی شخص " مير افلام" یا "میری باندی“ کہے۔ میرا بچہ اور میری بچی کہیے۔ آپ ﷺ کا حکم تھا کہ : یہ تمہارے بھائی ہیں جو خود کھاتے ہو وہی ان کو کھلاؤ اور جو خود پہنتے ہو وہی ان کو پہناؤ۔غلاموں سے آپ کا سلوک اس طرح کا تھا کہ زید بن حارثہ جو آپ کے غلام تھے ان کے باپ ان کو لینے کے لیے آئے اور آپ ﷺ نے انہیں ساتھ لے جانے کی اجازت دے دی لیکن زید نے باپ کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا اور حضور اکرم ﷺ کی غلامی کو آزادی की زندگی پر ترجیح دی۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں آزاد کر دیا اور اپنی پھوپھی زاد سے ان کا نکاح کر دیا۔ ایک شخص خدمت نبوی میں حاضر ہوا۔ عرض کی یا رسول اللہ ! (ﷺ) میں اپنے غلاموں کا قصور کتنی دفعہ معاف کروں ۔ آپ نے فرمایا " ہر روز ستر بار معاف کیا کرو۔ آپ ﷺ نے غلاموں کو آزاد کرنے کی ترغیب دی اور کئی ایسے طریقے رائج کیے جن کے نتیجے میں بہت جلد غلامی ختم ہو گئی۔ اس کے علاوہ قبائل کے سرداروں، دوسرے ملکوں کے بادشاہوں اور ان کے حکمرانوں کے ساتھ تعلقات اور معاملات کے بے شمار نمونے سیرت اور حدیث کی کتابوں میں ہیں جو ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔

PlantUML Diagram