1 - حضرت ابو بکر صدیق آپ کا نام عبد اللہ کنیت ابو بکر اور لقب صدیق تھا۔ آپ کے والد کا نام عثمان اور کنیت ابو قحافہ تھی ۔ آپ کی والدہ کا نام سلمی اور کنیت ام الخیر تھی ۔ آپ قریش کی شاخ تیم سے تعلق رکھتے تھے。 1.1 بچپن کی دوستی حضرت ابو بکر صدیق له رسول اکرم ﷺ کے تقریبا ہم عمر تھے۔ حضرت ابو بکر صدیق بچپن ہی سے صداقت اور امانت کے لیے مشہور تھے۔ انتہائی متعین اور سنجیدہ تھے۔ عرب کے برے رسم ورواج اور لوگوں کی غلط عادتوں سے متنفر تھے۔ آپ نے کبھی شراب نہیں پی تھی۔ بت پرستی سے شروع سے ہی نفرت تھی۔ آپ کا مزاج رسول اللہ ﷺ کے مزاج سے ملتا تھا اس لیے بچپن ہی سے دونوں میں دوستی اور محبت کا تعلق تھا۔ جوانی میں کئی بار دونوں نے اکٹھے تجارتی سفر کیے۔ 1.2 قبول اسلام رسول اکرم ﷺ کو جب نبوت ملی اور پہلے پہل آپ نے اپنے خاص تعلق والے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی۔ حضرت ابو بکر صدیق بھی انہیں میں شامل تھے۔ آپ نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے فورا رسول اللہ کی تصدیق کی اور حلقہ بگوش اسلام ہو گئے۔یہ تو معلوم نہیں کہ پہلا مسلمان ہونے کی سعادت دراصل کے حاصل ہے لیکن یہ ہمیں معلوم ہے کہ : مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابو بکر صدیق عورتوں میں سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بچوں میں سب سے پہلے حضرت علی غلاموں میں سب سے پہلے حضرت زید بن حارثہ طویل مشرف بہ اسلام ہوئے۔ 1.3 اشاعت اسلام حضرت ابو بکر صدیق نے مسلمان ہوتے ہی اسلام کی دعوت و تبلیغ کا کام شروع کر دیا اور بہت سے معزز افراد آپ کی دعوت پر مسلمان ہوئے جن میں حضرت عثمان ، حضرت زبیر بن العوام ، حضرت عبد الرحمن بن عوف حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت طلحہ ایسے جلیل القدر صحابہ کرام شامل ہیں۔ 1.4 مشکلات کے ساتھ حضرت ابو بکر صدیق ، مکہ معظمہ کے ایک مال دار تاجر تھے۔ اسلام لانے کے بعد آپ نے جان و مال سے اور مشورے میں غرض ہر حیثیت سے رسول اکرم ﷺ کا بھر پور ساتھ دیا۔ مکی زندگی کے تیرہ سال کفار کی ایذا رسانیوں اور مسلمانوں کی مظلومیت کا عرصہ ہے۔ اس سارے عرصے میں آپ رسول اکرم ﷺ کی پشت پناہ رہے۔ تبلیغ اسلام میں ساتھ رہتے ۔ جہاں حضور اکرم ﷺ تشریف لے جاتے ساتھ جاتے اور اپنے جاننے والوں سے تعارف کراتے ۔ کئی بار کفار نے آپ کو بھی سخت اذیتیں دیں۔ ایک دفعہ اتنا مارا کہ آپ بے ہوش ہو گئے۔ جب ہوش آیا تو سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی خیریت دریافت کی اور جب تک اپنی آنکھوں سے حضور ﷺ کو دیکھ نہیں لیا چین نہیں آیا۔آپ کی دوست ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کے لیے خرچ ہوتی۔ مکہ میں شروع کے دنوں میں جو غلام اور باندیاں مسلمان ہوئے ان کے آقا ان کو سخت اذیتیں دیتے ۔ حضرت ابو بکر صدیق سے یہ منظر دیکھا نہ گیا آپ نے حضرت بلال عامر بن فبیر وہ شہد یہ جاریہ اور کئی دوسرے غلام اور باندیوں کی منہ مانگی قیمت دے کر انہیں آزاد کرایا۔ 1.5 سفر ہجرت کا ساتھ مکہ میں مسلمانوں کے لیے زندگی بہت مشکل ہو گئی تھی، دوسری طرف مدینہ منورہ میں اسلام پھیلنا شروع ہو گیا اور مدینہ والوں نے مکہ معظمہ کے مظلوم مسلمانوں کو پناہ دینا شروع کر دی۔ ان حالات میں حضرت ابو بکر صدیق ﷺ نے بھی ہجرت کا ارادہ کیا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا ابھی انتظار کریں۔ امید ہے مجھے اللہ تعالی کی طرف سے ہجرت کا حکم ہوگا ۔ آپ نے کہا پھر مجھے بھی اپنے ساتھ جانے کی سعادت سے نوازیں۔ حضورﷺ نے فرمایا ہاں ! آپ ساتھ چلیں گے。 چار ماہ بعد یہ مختصر قافلہ مکہ سے خاموشی سے نکلا اور غار ثور میں جا اترا۔ مکہ والوں نے بہت تلاش بہت تلاش کی لیکن ناکامی ہوئی۔ غار ثور میں تین دن قیام کے بعد یہ قافلہ اب چار آدمیوں پر مشتمل تھا جس میں عامر بن فہیرہ اور عبد اللہ بن اربط بھی شامل ہو گئے تھے ایک غیر معروف راستے سے مدینہ روانہ ہوئے اور 12 ربیع الاول کو مدینہ پہنچے۔ ے۔ را راستے میں حضرت ابو بکر صدیق نے اپنی جان سے بڑھ بڑھ کر کر رسول اکرم ﷺ کا خیال رکھا ۔ 1.6 تعمیر مسجد ہجرت کے بعد رسول اکرم کو سب سے پہلے مدینہ میں مسجد تعمیر کرنے کا خیال پیدا ہوا۔ اس کے لیے جو زمین منتخب کی گئی وہ یتیم بچوں کی تھی ۔ حضرت ابو بکر صدیق نے اس مین کی قیمت ادا کی اور وہاں مسجد کی تعمیر ہوئی جو مسجد نبوی کے نام سے مشہور ہے۔1.7 غزوات میں شرکت اگر چہ ہجرت کے بعد مسلمانوں کی مظلومیت اور بے بسی کا دور ختم ہو گیا تھا لیکن حالات نے مسلمانوں کو مشرکین اور یہودیوں کے خلاف لڑائیوں پر مجبور کر دیا۔ ان تمام لڑائیوں میں حضرت ابو بکر صدیق حضور اکرم ﷺ کے ساتھ ایک مشیر اور وزیر کے طور پر شریک رہے۔ جنگ کی ہولناکیوں میں بھی آپ حضور ان کی خدمت گزاری سے نافل نہیں ہے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر مشرکین مکہ سے مسلمانوں کا جو معاہدہ ہوا اس پر حضرت عمرہ ہے جیسے بزرگ بھی سخت بے چین تھے لیکن حضرت ابو بکر صدیق نے یہ کہہ کر انہیں مطمئن کر دیا کہ آنحضرت ﷺ خدا کے رسول ہیں۔ اس لیے آپ اللہ کا فیصلہ اللہ کا فیصلہ ہے اور اللہ آپ اللہ کا حامی و ناصر ہے۔ جس زمانے میں غزوہ تبوک پیش آئی وہ مسلمانوں پر سخت تنگی کا وقت تھا۔ حضور اکرم ﷺ نے صحابہ کرام کو جنگی تیاریوں کے لیے راہ خدا میں چندہ دینے کی اپیل کی ۔ تمام صحابہ کرام نے اس موقع پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا لیکن حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ سب سے سبقت لے گئے اور گھر کا سارا اثاثہ لا کر رسول اللہ ﷺ کے سامنے ڈال دیا۔ حضور اکرم ﷺ نے پوچھا بچوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟ عرض کی ان کے لیے اللہ اور اللہ کا رسول کافی فی ہے ۔ علامہ اقبال نے اس واقعہ کو غم کرتے ہوئے کیا خوب کہا ہے۔ پروانے کو چراغ تو بلبل کو پھول بس صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول ہیں1.8 خلافت صدیق اکبر حجۃ الوداع سے واپسی پر رسول اکرم ﷺ بیمار ہو گئے ۔ جب بیماری نے شدت اختیار کی اور مسجد نبوی میں جا کر نماز پڑھنا دشوار ہو گیا تو آپ نے حضرت ابو بکر صدیق ﷺ کو اپنی جگہ امامت کا شرف عطا فرمایا۔ اگر چہ آنحضرت ﷺ نے اپنے بعد کسی کو خلیفہ بنانے کے بارے میں صراحت نہیں فرمائی تاہم اپنی جگہ حضرت ابو بکر صدیق کو مسجد نبوی کی امامت سپرد کر کے جانشینی کی طرف اشارہ فرما دیا۔ حضور اکرم ﷺ کے وصال کے فورا بعد جانشینی کا مسئلہ پیدا ہوا۔ منافقین جن کی خاصی بڑی تعداد مدینہ میں تھی ہر وقت مسلمانوں کو اندر سے نقصان پہنچانے کے درپے رہتے تھے۔ چنانچہ منافقین کی سازش سے حضور ﷺ کی تجہیز و تکفین سے پہلے ہی جانشینی کا مسئلہ کھڑا کر دیا گیا اور بہت سے لوگ سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہو گئے۔ حضرت ابو بکر صدیق ر کو بر وقت اس کی اطلاع ہو گئی آپ حضرت عمر اور حضرت ابو عبیدہ بن الجرح کو لے کر فورا وہاں پہنچے تو منافقین نے انصار کے ایک معزز صحابی کا نام جانشینی کے لیے پیش کر رکھا تھا۔ ایک دوسری تجویز یہ زیر غور تھی کہ ایک امیر مہاجرین سے ہو اور ایک انصار ہے۔ ان دونوں تجویزوں کا نتیجہ اسلامی ریاست کا خاتمہ اور مسلمانوں میں خلفشار تھا لیکن انصار کو ناراض کرنا بھی عقل مندی نہیں تھی۔ اس نازک موقع پر حضرت ابو بکر صدیق نے بہت نرمی سے انصار کو سمجھایا اور انتہائی پر اثر گفتگو کی جس میں انصار کی اسلامی خدمات کو سراہا اور انہیں بتایا کہ عرب معاشرہ ان کی سرداری کو قبول نہیں کرے گا اس لیے مناسب یہی ہے کہ قریش کے کسی فرد کو جانشین بنایا جائے اور میرے ساتھ عمر اور ابو عبیدہ ہیں ان میں سے جس کے ہاتھ پر چاہو بیعت کر لو۔ حضرت ابو بکر صدیق سے کی گفتگو کا خاطر خواہ اثر ہوا جسے دیکھتے ہوئے حضرت عمر ﷺ نے آگے بڑھ کر حضرت ابو بکر صدیق ﷺ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر فرمایا کہ آپ ہم سب میں بہتر اور رسول اللہ ﷺ کے سب سے زیادہ قریب ہیں اس لیے ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں اس کے بعد تمام مسلمان ٹوٹ پڑے اور آپ کے ہاتھ پر عام بیعت ہوئی اس طرح آپ خلیفہ رسول منتخب ہو گئے۔1.9 پہلی تقریر خلیفہ منتخب ہونے کے بعد آپ نے قوم سے خطاب کیا جس میں آپ نے اپنی حکومت کی پالیسی بیا بیان کی ارشاد فرمایا: لوگو! میں تم پر حاکم بنایا گیا ہوں حالانکہ میں تمہاری جماعت میں سب سے بہتر نہیں ہوں اگر میں اچھا کام کروں تو میری اطاعت کرو اور اگر میں کج روی اختیار کروں تو مجھے سیدھا کر دو سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت۔ تمہارا کمزور ترین فرد بھی میرے نزدیک قوی ہے یہاں تک کہ میں دوسروں سے اس کا حق اس کو نہ دلا دوں اور تمہارا قوی شخص بھی میرے نزدیک ضعیف ہے یہاں تک کہ میں اس سے دوسروں کا حق حاصل نہ کرلوں ۔ یاد رکھو جو قوم جہاد فی سبیل اللہ چھوڑ دیتی ہے اللہ تعالی اس کو ذلیل و خوار کر دیتا ہے اور جس قوم میں بدکاری پھیل جاتی ہے اللہ تعالی اس کو مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اگر میں اللہ تعالی اور اس کے رسول کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کرو اور اگر اس کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت لازم نہیں ہے۔