5- حضرت عمر فاروق

5.1 نام و نسب آپ کا نام عمر کنیت ابو حفص اور لقب فاروق تھا۔ آپ کے والد کا نام خطاب اور والدہ کا نام ختمہ تھا۔ آپ کا تعلق قریش کی شاخ بنو عدی سے تھا۔

5.2 قبول اسلام آپ مکہ کے ان لوگوں میں سے تھے جن کا بہت زیادہ اثر و رسوخ اور رعب و دبدبہ تھا۔ قبول اسلام سے پہلے آپ اسلام کے بدترین مخالفوں میں سے تھے۔ نبوت کے ساتویں سال رسول اللہ ﷺ نے دُعا کی: الہی ! اسلام کو ابو جہل یا عمر بن الخطاب میں سے کسی ایک کے ذریعے غلبہ عطا فرما۔ اس دعا کے بعد جلد ہی حضرت عمر مسلمان ہو گئے۔ حضرت عمر کے اسلام لانے سے پہلے مسلمان مشکلات کا شکار تھے اور چھپ چھپ کر عبادت اور تبلیغ کرتے تھے۔ آپ نے مسلمان ہو کر مسلمانوں کی جماعت کو ساتھ لے کر علانیہ خانہ کعبہ میں نماز ادا کی اور مشرکین کو توحید کی دعوت دی۔

5.3 جرات مندی قبول اسلام کے بعد آپ کی بہادری اور جرات میں اضافہ ہو گیا ۔ جب مسلمان ہجرت کر کے اکا دکا مدینہجا رہے تھے تو حضرت عمر پوری تیاری کے ساتھ نکلئے بیت اللہ کا طواف کیا اور اعلان کیا کہ میں ہجرت کر کے مدینہ جا رہا ہوں جس نے اپنی بیوی کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کرانا ہو آئے اور مجھے روکے ۔ کسی میں ہمت نہ ہوئی۔ بدر میں ستر کا فر گرفتار ہو کر آئے ان کے بارے میں آپ کی تجویز تھی کہ ان سب کو تہ تیغ کر دیا جائے تا کہ کفر کا زور ٹوٹ جائے اور ہر شخص اپنے قریبی عزیز کو قتل کرے۔ اس سے پہلے آپ اس کا عملی مظاہرہ کر چکے تھے کہ آپ نے بدر میں اپنے حقیقی ماموں عاص بن ہشام کو خود اس کے خنجر سے ہلاک کیا تھا۔ صلح حدیبیہ میں جن شرائط پر مسلمانوں اور مکہ والوں کی صلح ہوئی وہ بظاہر مسلمانوں کے خلاف تھیں۔ حضرت عمر ﷺ کو اصرار تھا کہ ہم حق پر ہیں اور جان کی بازی لگانے کو تیار ہیں پھر کیوں دب کر صلح کریں لیکن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اللہ کا یہی حکم ہے۔ غزوہ تبوک میں جب رسول اللہ ﷺ نے چندے کی اپیل کی تو آپ اپنے گھر کا آدھا اثاثہ لے کر خدمت نبوی میں حاضر ہو گئے۔ حضور ﷺ سے آپ کو اس قدر محبت تھی کہ جب حضور ﷺ کا وصال ہوا تو تلوار لے کر کھڑے ہو گئے اور اعلان کر دیا کہ جو شخص یہ کہے گا کہ آپ ﷺ وفات پاگئے اس کا سر قلم کر دوں گا ۔ اس نازک وقت میں حضرت ابو بکر صدیق نے سب کو سنبھالا دیا۔ سقیفہ بنی ساعدہ میں آپ نے بروقت پہنچ کر اور حضرت ابو بکر صدیق ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کر کے امت کو بہت بڑے فتنہ سے بچا لیا۔ حضرت ابو بکر صدیق کے پورے زمانہ خلافت میں ان کے دست بازو کے طور پر کام کیا حتی کہ ایک موقع پر کسی نے حضرت ابو بکر صدیق سے شکایت کی کہ آپ خلیفہ ہیں یا عمر؟ تو انہوں نے جواب دیا عمر5.4 خلافت او پر آپ پڑھ چکے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق نے مرض وفات میں آپ کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا اس وقت کئی لوگوں نے حضرت عمر کے مزاج کی کشتی کا ذکر کیا لیکن حضرت ابو بکر صدیق ے نے یہ کہہ کر انہیں طمئن کر دیا کہ میں بہت نرم تھا اس لیے وہ سخت تھے۔ جب خلافت کا بوجھ پڑے گا تو خود بخود نرم ہو جائیں گے۔

5.5 فتوحات حضرت عمر ، نه مسند خلافت پر بیٹھے تو انہیں فوری طور پر ان جنگی مہموں کی طرف توجہ کرنا پڑی جو حضرت ابو بکر صدیق کے آخری دور میں جاری تھیں۔ شام اور عراق کے محاذوں پر جھٹر میں ہو رہی تھیں۔ مسلمانوں نے اس وقت کی دو بڑی طاقتوں روم اور ایران کے کچھ علاقہ فتح کر لیے تھے اس لیے ان حالات میں سکون سے امور مملکت چلا نا ممکن نہیں تھا حضرت عمر اللہ نے پہلے عراق کی طرف توجہ فرمائی ۔

5.5.1 فتح قادسیه حضرت عمرے سے مدینہ اور آس پاس کے علاقوں کے مسلمانوں اور تمام ان قبائل میں جو اسلام سے وابستہ تھے جہاد کی روح پھونک دی اور حضرت سعد بن ابی وقاص کی قیادت میں میں ہزار فوج کو ایران کے محاذ پر روانہ کر دیا ۔ حضرت سعد اللہ نے جنگ شروع ہونے سے پہلے ایرانیوں کو اسلام قبول کرنے کی یا ماتحت ہو کر پر امن طور پر رہنے کی دعوت دی جسے انہوں نے رد کر دیا. آخرین 14 رہجری کے ماہ محرم میں قادسیہ کے میدان میں دونوں فوجوں کا آمنا سامنا ہوا۔ ایرانی سپہ سالار ر تم ساتھ ہزار فوج اور ہاتھیوں کی زبردست قوت کے ساتھ مسلمانوں کے مقابلے پر تھا۔ جنگ تین دن جاری رہی۔ آخر تیسرے دن ایرانیوں کو شکست ہو گئی۔ رستم بھاگتے ہوئے مارا گیا۔ اس جنگ میں دو ہزار مسلمان شہید ہوئے اور میں ہزار ایرانی مارے گئے۔قادسیہ کی فتح کے بعد مسلمانوں نے آسانی سے ایران کے پایہ تخت مدائن پر قبضہ کر کیا اور ایرانی سلطنت کا عرب علاقہ مسلمانوں کے پاس آگیا۔

5.5.2 فتح نهاوند ایرانیوں نے اپنی قوت دوبارہ جمع کی اور مرد کو پایہ تخت بنا کر پورے ایران سے مسلمانوں کے مقابلے کے لیے فوج جمع کی جس کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تھی۔ حضرت عمر ریلے نے ان کے مقابلے کے لیے حضرت نعمان بن مقرن کی سربراہی میں تازہ دم فوج روانہ کی ۔ مسلمانوں کی تعداد میں ہزار تھی۔ ایران کے شہنشاہ یزد گرد نے مشہور سپه سالار مروان شاہ کو فوجوں کا سربراہ بنایا اور نہاوند کے مقام پر دونوں فوجوں کا آمنا سامنا ہوا۔ مسلمان نہایت پامردی سے لڑے۔ نعمان بن مقرن زخمی ہو کر گر گئے لیکن انہوں نے کہا کہ لڑائی جاری رکھی جائے کوئی ان کی طرف توجہ نہ دے۔ ان کے بھائی نعیم نے علم ہاتھ میں لے لیا اور رات ہوتے ہوتے ایرانیوں کے پاؤں اکھر گئے اس جنگ میں تیس ہزار ایرانی مارے گئے اور ایران کی قوت کا خاتمہ ہو گیا۔

5.5.3 جنگ پر موک شام کے محاذ پر حضرت خالد بن ولید نے دمشق اور دوسرے بہت سے علاقے فتح کر لیے تھے۔ آخر قیصر روم نے مسلمانوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑنے کی تیاری شروع کر دی۔ سارے ملک سے فوجیں جمع کیں۔ پادری اپنے فوجیوں کا جوش و جذبہ ابھارنے کے لیے اپنی عبادت گاہوں سے نکل آئے اور عیسائی دو لاکھ سے زائد فوج کے ساتھ مسلمانوں کے مقابلے کے لیے میدان میں آگئے ۔ ادھر حضرت عمر ہیں نے حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کی سرکردگی میں جو فوج بھیجی اس کی تعداد میں ہزار سے کم تھی۔ یرموک کے مقام پر معرکہ ہوا اور خوفناک جنگ کے بعد مسلمانوں کو فتح ہوئی۔ اس لڑائی میں تین ہزار مسلمان شہید ہوئے اور تقریبا ستر ہزار رومی مارے گئے ۔5.5.4 بیت المقدس کی فتح شام کا مرکزی شہر بیت المقدس ابھی تک عیسائیوں کے قبضے میں تھا۔ مسلمانوں نے اس کا محاصرہ کیا تو انہوںعافیت کا حصہ بن گئیں۔ نے صلح کی پیش کش کی اور یہ کہا کہ امیر المومنین خود آ کر معاہدہ کریں۔ چنانچہ حضرت عمر اللہ معاہدہ کرنے کے لیے 16 ہجری میں بیت المقدس تشریف لے گئے اور بیت المقدس کے عیسائیوں کو امان لکھ دی۔ اس معاہدے کی رو سے ان کی جان، مال، عزت اور مذہب کو تحفظ دیا گیا اور ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی ذمہ داری مسلمانوں نے خود اٹھائی ۔ حضرت عمر پہلے کی فوجی حکمت عملی کا ہی نتیجہ تھا کہ اس وقت کی دنیا کی دو سب سے بڑی سلطنتیں ایران اور زوم چند سال میں اسلام کے دامن امن و عافیت کا حصہ بن گئیں۔ و

PlantUML Diagram