6- عہد فاروقی کے کارناے
حضرت عمر ے کی فتوحات کا مختصر حال آپ نے پڑھ لیا لیکن اتنی فوجی مصروفیات کا یہ مطلب نہیں کہ حضرت عمر ر انتظام سلطنت کے دوسرے معاملات سے بے خبر تھے یا ان کی طرف کم توجہ دی گئی۔ فتوحات کے ساتھ ساتھ حضرت عمر نے ایسی انتظامی دستوری اور عدالتی روایات کی بنیاد رکھی کہ آج تک مسلمان ہی نہیں غیر مسلم بھی حضرت عمر کے دور کی مثال دیتے ہیں۔ ان میں سے چند اہم کارناموں کو بیان کیا جاتا ہے۔
6.1 شوری قرآن حکیم نے حکومت کا انتظام چلانے کے لیے مسلمانوں کو اہل رائے کے مشورے کا پابند کیا ہے۔ حضرت عمر اللہ نے شوری کو ایک باقاعدہ حیثیت دی۔ روز مرہ کے کاموں کے لیے آپ نے چند صحابہ کرام کی ایک شوری قائم کی تھی جن میں حضرت علی عبد الرحمن بن عوف معاذ بن جبل ابی بن کعب اور زید بن ثابت را شامل تھے۔ اہم معاملات کے لیے اس سے بڑی ایک شوری تھی جس میں تمام ممتاز مہاجرین اور انصار شامل تھے۔ بین الاقوامی امور طے کرنے کے لیے آپ نے ایک ایسی شوری کی بنیاد رکھی تھی جس میں تمام قبائل صوبوں اور علاقوں کے نمائندہ لوگ شامل تھے اور اہم مواقع پر ان کو مدینہ بلا کر ان سے مشورے لیے جاتے تھے۔
اس کے باوجود قابل رشک بات یہ ہے کہ ہر مسلمان کو حکومت پر تنقید کا حق حاصل تھا اور عام مسلمان حضرت عمر کو بر سر عام معمولی باتوں پر نوک دیا کرتے تھے۔6.2 صوبوں کی تقسیم
حضرت عمر اللہ نے تمام مفتوحہ ممالک کو آٹھ صوبوں میں تقسیم کر کے ہر صوبے کا الگ گورنر میر منشی (چیف سیکرٹری فوج کا میر منشی ( کور کمانڈر ) کلکٹر افسر پولیس افسر خزانہ اور قاضی مقرر کیے۔
6.3 عمال کا محاسبہ سرکاری ملازمین اور عمال کے بارے میں حضرت عمر ، کا معیار بہت سخت تھا۔ کسی سرکاری ملازم کی چھوٹی سے چھوٹی غلطی بھی قابل معافی نہ تھی ۔ جس شخص کو کوئی سرکاری عہدہ دیا جاتا اس کی تمام جائیداد کی فہرست بنا کر رکھ لی جاتی اور جب وہ سبکدوش ہوتا تو دوبارہ اس کی جائیداد کی فہرست تیار کی جاتی۔ اگر پہلی فرصت سے زیادہ مال و اسباب نکلتا تو اس سے باز پرس کی جاتی اور مال ضبط کر کے بیت المال میں داخل کر دیا جاتا۔
ہر عامل کو تقرری کا پروانہ دیتے ہوئے اس سے یہ عہد لیا جاتا کہ: وہ ترکی گھوڑے پر سوار نہیں ہوگا باریک کپڑے نہیں پہنے گا چھنا ہوا آنا نہیں کھائے گا دروازے پر دربان نہیں رکھے گا اور اہل حاجت کے لیے ہمیشہ دروازہ کھلا رکھے گا۔
یہ پروانہ عام مجمع میں پڑھ کر سنایا جاتا تا کہ عمال سے ہر کوئی باز پرس کر سکے۔
اس کے علاوہ تمام سرکاری عمال کو حج کے موقعہ پر مکہ معظمہ میں حاضری کا حکم ہوتا تھا اور لوگوں میں عام اعلان تھا کہ جس کسی کو عامل سے کوئی شکایت ہو وہ اس موقعہ پر حضرت امیر المومنین کے پاس شکایت کرے چنانچہ موقع پر ہی دادری کا انتظام تھا۔ اس سلسلے میں کئی عاملوں کو آپ نے مختلف سزائیں بھی دیں۔6.4 عدالتی نظام
عہد فاروقی میں ابتدا میں بعض انتظامی دشواریوں کی وجہ سے عدالتی اور انتظامی عہدے اکٹھے رہے لیکن بعد میں آپ نے قضا کا محکمہ الگ کر دیا اور تمام علاقوں میں عدالتیں قائم کر کے قاضی مقرر کر دیئے ۔
قاضیوں کی رہنمائی کے لیے آپ نے ایک ضابطہ اصول تیار کیا۔ معزز آدمیوں کی رعایت سے منع کیا گیا مقدمات میں صلح کرانے کی ترغیب دی اور قرار دیا کہ مقدمات کے فیصلے قرآن حکیم کے حکم کے مطابق کیے جائیں۔ اگر قرآن حکیم میں واضح حکم نہ ہو تو حدیث کی جانب رجوع کیا جائے اور اگر حدیث میں بھی حکم نہ ملے تو اجتہاد کر لیا جائے۔
اس کے علاوہ آپ نے امن وامان قائم رکھنے کے لیے پولیس کا مستقل محکمہ قائم کیا ۔ مجرموں کے لیے جیل خانے بنائے ۔ زکوۃ اور ٹیکس وصول کرنے کے ۔ کرنے کے لیے محکمہ محاصل قائم کیا۔ باقاعدہ تنخواہ دار فوج رکھی اور فوج کو منظم کیا ۔ تعلیم عام کرنے کے لیے ہر جگہ مدارس قائم کیے اور اساتذہ کی تنخواہیں مقرر کیں۔ ہر شہر میں ضرورت کے مطابق مساجد تعمیر کرائیں اور مسجد نبوی میں توسیع کی۔ زراعت کو ترقی دینے کے لیے نہریں کھدوائیں۔ رسل و رسائل کی سہولتیں عام کرنے کے لیے سڑکیں تعمیر کرائیں۔
6.5 غیر مسلموں سے حسن سلوک آپ کو اسلامی ریاست میں آباد غیر مسلموں کا بہت خیال رہتا تھا۔ ان سے معمولی سائیکس لیا جاتا تھا جس کے بدلے میں ان کی جان مال عزت اور مذہب کی حفاظت کی جاتی ۔ جو شخص ٹیکس ادا نہ کر سکتا اور غریب ہوتا اس کی سرکاری خزانے سے امداد کی جاتی ۔ ان کی جان و مال کو اتنا تحفظ حاصل تھا کہ ایک موقع پر ایک غیر مسلم ذی قتل ہو گیا تو آپ نے اس کا قصاص دلاتے ہوئے فرمایا کہ اگر اس شہر کے سارے مسلمان اس کے قتل میں شریک ہوتے تو میں قصاص میں سب کو قتل کر دیتا۔