حضرت عباس

70

حضرت حکیم بن حزام و

100

حضرت عبد اللہ بن عمر دے

1000

ذوالکلاع حمیری .

8000

حضرت عبد الرحمن بن عوف و

30000اس کے علاوہ جنہوں نے اس کارخیر میں حصہ لیا ان کی تفصیل مہیا کر نا ممکن ہی نہیں۔

انسان خطا کا پتلا ہے اس سے کوئی نہ کوئی غلطی ہو جاتی ہے۔ چنانچہ مختلف غلطیوں کے کفارے کے طور پر غلام آزاد کرنے کا حکم دیا گیا۔ مثلا اگر کسی شخص سے خطاء کوئی قتل ہو جائے تو اس کا کفارہ قسم توڑنے کا کفارہ ظہار ( بیوی کو ماں بہن کہہ دینا ) کا کفارہ فرض روزہ توڑنے کا کفارہ غلام آزاد کرنا ہے۔ اس کے علاوہ جو غلام آزاد ہونا چاہیے وہ اپنے آقا کو مقررہ رقم دے کر آزادی حاصل کر سکتا ہے۔

اس کے باوجود اگر کچھ غلام باندیاں باقی رہے جاتے ہیں تو ان کو تقریبا وہی حقوق دیئے گئے جو گھر کے افراد کو حاصل ہوتے ہیں۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

لونڈی غلام تمہرے بھائی بہن ہیں ۔ خدا نے ان کو تمہارے ماتحت کر دیا ہے۔ جس کے بھائی بہن کو اللہ تعالیٰ اس کے ماتحت کر دے اس کو چاہیے کہ جیسا وہ خود کھاتا ہے ویسا ہی ان کو کھلائے اور جیسا خود پہنتا ہے، ویسا ہی ان کو پہنائے ۔ ان کو ایسے کام کی تکلیف نہ دے جو ان کی طاقت سے باہر ہو۔ اگر کبھی ایسا کام پیش آ جائے تو خود اس کام میں ان کا ہاتھ بنائے۔

غلاموں کو اتنی عزت دی گئی کہ رسول اکرم ﷺ نے اپنی پھوپھی زاد حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح اپنے غلام زید بن حارثہ اللہ سے کر دیا ۔ حضرت زید کے بیٹے اسامہ سے رسول اکرم ﷺ اتنی محبت کرتے کہ ایک زانو پر حضرت حسن ہے کو بٹھاتے اور دوسرے پر اسامہ کو اور فرماتے

اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما۔

عام خادموں کے ساتھ یہی شفقت تھی ۔ حضرت انس بن مالک ، غلام نہیں تھے بلکہ انصار کے معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے لیکن بچپن ہی سے ان کو آپ کی خدمت کا شرف حاصل تھا اور دس سال تک خلوت و جلوت میں آپ ﷺ کی خدمت کی سعادت حاصل کی۔ صبح سویرے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور دو پھر کوواپس گھر جاتے ۔ ظہر کے وقت پھر حاضر ہوتے اور عصر کی نماز پڑھ کر گھر جاتے۔ آنحضرت خود کو ان سے بڑی محبت تھی۔

پیار میں ان کو بینا کہتے تھے۔ کبھی کبھی ان کے گھر تشریف لے جاتے اور کھانا نوش فرماتے، دوپہر کا وقت ہوتا تو آرام فرماتے، پھر اٹھ کر نماز پڑھتے اور حضرت انس بے کے لیے دعا فرماتے ۔ حضرت انس کا بیان ہے کہ :

میں نے دس برس تک رسول اللہ ﷺ کی خدمت کی لیکن نہ آپ ﷺ نے کبھی کسی بات پر غصہ فرمایا اور نہ پوچھا کہ یہ کام کیوں ہوا۔

اسلام کی تعلیمات ہی کا اثر تھا کہ غلاموں اور ان کی اولاد میں سے بڑے بڑے علماء فقہاء مفسرین اور محدثین پیدا ہوئے حتی کہ ہاشمی اور مطلبی خاندان کے افراد نے ان کی شاگردی اختیار کرنے کو اپنے لیے باعث م بادت سمجھا۔

خلاصه

اسلام نے غلامی کو بتدریج ختم کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کیے

2 سبہ کرام نے نے ہزاروں کی تعداد میں غلام اور باندیاں خرید کر انہیں وادیا ۔

غلاموں اور باندیوں کو وہی حقوق دیئے گئے جو گھر کے افراد کو حاصل تھے۔

4 خادموں کے ساتھ شفقت کا برتاؤ کیا اور ان کی تربیت کا ایسا انتظام کیا کہ ان میں بڑی بڑی جھیل القدر مینیں پیدا ہو ئیں ۔

PlantUML Diagram