2- رواداری اور وسعت نظری
اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے ۔ " اسلام" کا لفظ ہی سلامتی کے معنوں میں ہے۔ گویا جو شخص مسلمان ہے وہ ساری دنیا کے لیے امن، محبت، سلامتی اور رواداری کا پیغام بر ہے۔
آج ہمارے معاشرے کی حالت یہ ہے کہ لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں۔ کوئی شخص اختلاف رائے برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ چھوٹے چھوٹے مذہبی اور گروہی اختلاف باہمی قتل و غارت کا باعث بن جاتے ہیں۔ کیا یہ مسلمانوں کا طریقہ ہے؟
آئیے ! ہم آپ کو بتائیں کہ اس بارے میں اسلام کی تعلیمات کیا ہیں ۔
مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ جس طرح وہ حضرت محمد ﷺ کو اللہ تعالیٰ کا سچا رسول مانتا ہے اسی طرح وہ دوسرے تمام رسولوں اور نبیوں کو بھی سچا مانے ان پر ایمان لائے ان کا ادب کرے ان کی تعلیمات کو برحق سمجھے اور کوئی ایسا لفظ نہ کہے جس سے ان کی ذات یا ان کی تعلیمات کی بے ادبی ہوتی ہو۔ قرآن حکیم میں ہے:
لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ ﴾ (سوره البقره : 285) ہم اس کے رسولوں میں سے کسی کی تفریق نہیں کرتے۔
شاید آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ رسولوں کے درجات میں تو فرق ہے۔ بعض رسولوں کے درجے بہت بڑھے ہوئے ہیں اور رسول اکرم ﷺ کے درجات تمام رسولوں سے بڑھ کر ہیں تو او پر جو آیت درج کی گئی ہے اس کا کیا مطلب ہے؟اس سوال کا جواب آپ کو آیت کے ترجمہ سے مل سکتا ہے جس میں تفریق کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ تفریق کا مطلب ہے نکال دینا۔ رسولوں میں تفریق کرنے کا مطلب یہ ہو گا کہ بعض کو رسول ماننا اور بعض کو رسول نہ ماننا۔ جیسے یہودی حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت محمد ﷺ کو رسول نہیں مانتے یا عیسائی حضرت محمد ﷺ کو رسول نہیں مانتے۔ مسلمان تمام بچے رسولوں کو رسول مانتے ہیں اور رسولوں کی فہرست میں سے کسی کا نام خارج نہیں کرتے۔
اسلام کی رواداری اور وسعت کا تقاضا ہے کہ کسی شخص کو طاقت اور زبردستی سے مسلمان نہیں کیا جا سکتا۔ دین کا اختیار کرنا ہر انسان کی اپنی مرضی پر ہے۔ جو شخص چاہے مسلمان ہو جو نہ چاہے اسے مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اگر وہ غیر مسلم ہوتے ہوئے اسلامی ریاست میں رہنا چاہتا ہے تو اس کی جان مال عزت اور آبرو سب اسی طرحمحفوظ ہوں گے جیسے مسلمانوں کے محفوظ ہیں۔
لا إكراه في الدِّينِ ( سوره البقره 256 )
دین کے معاملے میں زبردستی نہیں۔
اسی طرح اسلام تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کو تحفظ دیتا ہے۔ حالت جنگ میں بھی کسی مذہب کی عبادت گاہ خواہ وہ گر جا ہو مندر ہو یا یہودیوں، مجوسیوں، بدھ مت، غرض کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ ہو اس کو جلانا گرانا مسمار کرنا یا کسی طرح کا نقصان پہنچانا درست نہیں حتی کہ کسی مذہب کے مذہبی رہنماؤں کو جنگ کی حالت میں قتل کرنا درست نہیں ہے۔
اسلام میں اس حد تک رواداری ہے کہ مشرکین جن جھوٹے خداؤں، بتوں وغیرہ کی پوجا کرتے ہیں ان کو برا بھلا کہنے سے منع کیا گیا ہے تا کہ وہ جواب میں اللہ تعالیٰ کو برا بھلا نہ کہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص اپنی عزت کرانا چاہتا ہے اسے دوسرے کی عزت کرنی چاہیے۔