3- سادگی

انسان زمین پر اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہے۔ مراد یہ ہے کہ انسان اصل مالک نہیں ہے اصل مالک اللہ تعالی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے کچھ کام انسان کے ذمے لگائے ہیں جو اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کرنے ہیں۔ جو کام بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کیا جائے وہ عبادت ہے اور جو کام اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق نہ کیا جائے وہ گناہ ہے۔ دنیا کے کا مثلا روزی کمانا وغیرہ اگر اللہ تعالی کے حکم کے مطابق کیے جائیں تو وہ عبادت بن جاتے ہیں اور اگر نماز ایسی چیز میں بھی اللہ تعالی کے حکم کی پابندی نہ کی جائے مثلا صبح کے دو کے بجائے تین فرض پڑھ لیے جائیں تو وہ گناہ ہے۔ قرآن حکیم میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور جنوں کو عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ یعنی اس لیے پیدا کیا کہ ہر کام اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کریں۔

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴾ (سوره الذريت (56)

اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔

آپ جانتے ہیں کہ ہر کام کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ ساز و سامان کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آپ کسی کو خط لکھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ کو کاغذ، قلم، روشناہی وغیرہ کی ضرورت ہو گی لیکن آپ کا اصل مقصد کا غذ قلم وغیرہ جمع کرنا نہیں بلکہ آپ کا مقصد اس شخص تک پیغام پہنچاتا ہے جسے آپ خط لکھ رہے ہیں۔ اگر آپ کاغذ، کا غذ قلم ہی اکٹھے کرتے رہیں اور خط نہ لکھیں تو گویا آپ نے اصل کام نہیں کیا اور بے مقصد کاموں میں کھو گئے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں دنیا میں بہت ساز و سامان دیا لیکن اگر ہم ساز و سامان جمع کرنے میں مصروف ہو جائیں اور اپنا اصل مقصد بھول جائیں تو یہ بہت بڑی نافرمانی ہے۔ دنیاوی ساز و سامان ہمیں اس لیے دیا گیا ہے کہ اصلمقصد حاصل کرنے میں آسانی ہو نہ یہ کہ ہم دنیا ہی میں کھو جائیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے آرائش و زیبائش کی چیزوں کو حرام نہیں کیا لیکن سادگی کو ترجیح دی ہے تا کہ انسان دنیا میں کھو کر اپنی اصل ذمہ داری سے غافل نہ ہو جائے۔

رسول اکرم ﷺ دونوں جہانوں کے سردار تھے۔ آپ ﷺ چاہتے تو دنیا کی ہر نعمت حاصل کر سکتے تھے بادشاہوں سے بھی بڑھ کر ٹھاٹھ باٹھ اور میش و عشرت کی زندگی گزارتے لیکن آپ ﷺ نے سادگی کا ایسا بہترین نمونہ قائم کیا جو ہر کسی کے لیے مثال ہے۔

کھانے پینے پہنے اوڑھنے اٹھنے بیٹھنے کسی چیز میں تکلف نہ فرماتے ۔ کھانے میں جو میسر آتا تناول فرماتے ۔ پہنے کو جو مل جانا پہن لیتے ۔ زمین پر فرش پر جیسی بھی صورت حال ہوتی بیٹھ جاتے۔ لباس میں نمائش کو نا پسند فرماتے تھے۔ ہر چیز میں سادگی اور بے تکلفی پسند تھی۔ آپ ﷺ کا معمول تھا کہ مسجد سے اٹھ کر گھر تشریف لے جاتے تو کبھی کبھی ننگے پاؤں چلے جاتے اور جوتی وہیں چھوڑ جاتے ۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ پھر واپس تشریف لائیں گے۔

من 9 ہجری میں جب کہ یمن سے شام تک سارے علاقے کے فرماں روا تھے ۔ ملک بھر سے جب زکوۃ و عشر وغیرہ کا مال جمع ہو کر آتا تو مسجد نبوی میں سونے کے ڈھیر لگ جاتے لیکن آپ کے گھر میں ایک کھری چار پائی اور چمڑے کا ایک مشکیزہ تھا۔ ایک مرتبہ حضرت عمر و حاضر ہوئے تو دیکھا کہ جسم مبارک پر ایک تہ بند ہے۔ ایک کھری چارپائی بچھی ہے۔ سر مانے ایک تکیہ پڑا ہوا ہے جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی ہے۔ ایک طرف مٹی بھر جو رکھے ہوئے ہیں ، ایک مشکیزہ کی کھال کھوئی سے لٹک رہی ہے۔ یہ ؛ یکھ کر حضرت عمر دینے کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ آپ ﷺ نے رونے کا سبب پوچھا ، عرض کی یا رسول اللہ ! قیصر و کسری تو باغ و بہار کے مزے لوٹیں اور آپ ﷺ خدا کے پیغمبر ہو کر اس حال میں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا " ابن خطاب ! کیا تمہیں پسند نہیں کہ وہ دنیا لیں اور ہم آخرت۔"

انتہائی قیمتی چیزیں آپ ﷺ کے پاس آتیں۔ کچھ لوگ تحائف بھیجے ۔ بادشاہوں کی طرف سے تحفے آتے لیکن آپ ﷺ سب کچھ لوگوں میں بانٹ دیتے اور خود سادگی اختیار فرماتے۔

PlantUML Diagram