7- بچوں پر شفقت ہر گھر میں جہاں بڑے ہوتے ہیں وہاں چھوٹے بھی ہوتے ہیں۔ اسلام واحد دین ہے جس نے حقوق کے معاملے میں چھوٹے اور بڑے کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی ۔ وہ جس طرح چھوٹوں پر بڑوں کے حق کو تسلیم کر؟ ہے اسی طرح بڑوں پر بھی چھوٹوں کے حقوق عائد کرتا ہے اور بڑی تفصیل سے ان کے حقوق کا احاطہ کرتا ہے۔
رسول اکرم ﷺ نے اس کا ایک بہترین اصول ارشاد فرمایا : جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کا ادب نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
بچہ جب ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اس وقت سے اس کے حقوق شروع ہو جاتے ہیں۔ پیدائش کے بعد اس کی پرورش اور نشوونما کے تمام ذرائع اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ عربوں میں قتل اولاد کی رسم عام تھی۔ و آن حکیم نے اس کو بہت بڑا گناہ قرار دیا اور شرک کے ساتھ اس کی ممانعت فرمائی۔ لڑکیوں کی پیدائش کو باعث عار سمجھا جاتا تھا۔ انہیں نا کور کر دینے کے درد ناک واقعات حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں آئے ہیں، اسلام نے اس رسم کوئی ہے بنا خاص طور پر اہمیت دی۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا جو شخص دولڑکیوں کی پرورش کرنے یہاں تک کہ وہ جوان ہو جائیں تو قیامت کے روز وہ اس طرح میرے قریب ہو گا جیسے ہاتھ کی دو اکھیاں آپس میں ساتھ ساتھ ہیں۔
ایک مرتبہ رسول اکرم ﷺ نے روپے پیسے خرچ کرنے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایانیز فرمایا: سب سے افضل دینار وہ ہے جسے آدمی اپنے بچوں کی ضروریات پر خرچ کرے۔ " اس شخص سے بڑا اجر کس کا ہو سکتا ہے جو اپنے چھوٹے بچوں پر خرچ کرتا ہے اور اس طرح ان کو دوسروں کی احتیاج سے بچا لیتا ہے۔
اولاد کو خوش حال چھوڑ جانا اخلاقی فرض ہے۔ اسی لیے ترکہ میں سے ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت جائز نہیں۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ہے دولت مند صحابی تھے۔ وہ ایک مرتبہ ایسے سخت بیمار پڑے کہ زندگی کی امید باقی نہ رہی۔ اس وقت ان کی صرف ایک بنی تھی۔ رسول اللہ ﷺ ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے。 انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میرے پاس دولت ہے اور میری وارث تنہا ایک لڑکی ہے، میں چاہتا ہوں کہ دو تہائی مال کی وصیت کسی کار خیر کے لیے کر جاؤں۔ فرمایا نہیں ۔ سعد نے عرض کیا اچھا نصف کی وصیت کروں ؟ فرمایا نہیں ۔ صرف ایک تہائی وصیت کرو اور ایک تہائی بھی بہت ہے۔ اپنے رشتہ داروں کو خوش حال چھوڑ جانا اس سے بہتر ہے کہ ان کو محتاج چھوڑ جاؤ اور دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔
اولاد کی پرورش کے ساتھ اس کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری بھی والدین پر ہے۔ قرآن حکیم نے ایک مختصر جملے میں ساری ذمہ داری سمودی ہے۔ فرمایا: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوْا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَاراً (التحريم (6) اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاؤ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ بچوں کی تربیت اس طریقے سے کرو کہ وہ ان تمام خرابیوں اور برائیوں سے بچ کر رہیں جو آدمی کو دوزخ میں لے جاتی ہیں۔ رسول اکرم ﷺ نے اولاد کو ادب سکھانے کو صدقہ و خیرات سے افضل قرار دیا ہے اس تعلیم کا اثر یہ ہے کہ اولاد جسے وبال جان سمجھا جاتا تھا وہ دل کا ٹکڑا اور آنکھوں کی ٹھنڈک بن گئی۔ ہمیں یہ دعا تلقین کی گئی ۔ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُريَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنِ (الفرقان (174) اے ہمارے رب ہماری بیویوں یا شوہروں کو اور ہماری اولاد کو آنکھوں کی ٹھنڈک بنا۔
اس سلسلے میں رسول اکرم ﷺ کا طرز عمل ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے ۔ آپ کا بچوں پر بے حد شفقت فرماتے۔ جب آپ ﷺ سفر سے واپس تشریف لاتے تو راہ میں جو بچے ملتے ان میں سے کسی کسی کو اپنے ساتھ سواری پر آگے بٹھاتے ۔ راستے میں جو بچے ملتے ان کو خود سلام کرتے ۔ آپ ﷺ کا معمول تھا کہ جب فصل کا نیا میوہ کوئی پیش کرتا تو حاضرین میں سے جو سب سے کم عمر بچہ ہوتا اس کو عنایت فرماتے ۔ بچوں کو چومتے اور ان سے پیار کرتے تھے۔ ایک دفعہ اسی طرح آپ بچوں کو پیار کر رہے تھے کہ ایک دیہاتی آیا اس نے کہا: آپ بچوں کو پیار کرتے ہیں میرے دس بچے ہیں مگر میں نے تو کبھی کسی کو پیار نہیں کیا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی نے اگر تمہارے دل میں سے محبت چھین لی ہے تو میں کیا کروں۔
ایک صحابی ﷺ کا بیان ہے کہ میں بچپن میں انصار کے کھجور کے باغوں میں چلا جاتا اور ڈھیلے مار کر کھجوریں کراتا۔ لوگ مجھے پکڑ کو رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں لے گئے۔آپ نے پوچھا ڈھیلے کیوں مارتے ہو ؟ میں نے کہا کھجور میں کھانے کے لیے آپ نے فرمایا جو خود بخود زمین پر گر پڑیں ان کو اٹھا کر کھا لیا کرو۔ ڈھیلے نہ مارو یہ کہہ کر میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور دُعا دی۔
بچوں کے ساتھ شفقت کا برتاؤ کرنے سے گھر کا ماحول خوشگوار رہتا ہے اور بچوں میں نہ تو چوری کی عادت پیدا ہوتی ہے نہ جھوٹ بولنے کی اور نہ ہی والدین کی نافرمانی کی۔