9- دوسروں کے کام آنا
اپنا کام خود کرنے سے اگلا قدم دوسروں کے کام آتا ہے اور یہی انسان کی حقیقی عظمت ہے۔ در حقیقت وہی انسان عزت پاتا ہے جو دوسروں کے کام آتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں جو شخص بھی آیا وہ اپنی عمر پوری کر کے دنیا سے چلا گیا لیکن وہ لوگ جنہوں نے انسانوں کی خدمت کی دوسروں کے کام آئے، خلق خدا کو نفع پہنچایا ان کا ذکر باقی رہتا ہے اور لوگ ہمیشہ ان کو اچھے نام سے یاد رکھتے ہیں۔ ذیل میں قرآن وحدیث اور نبی کریم ﷺ کی زندگی کے بعض واقعات سے دوسروں کے کام آنے کا حکم اور اس عمل کی فضیلت واہمیت واضح ہوتی ہے۔
رسول اکرم ﷺ پر جب پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ ﷺ گھبرائے ہوئے تشریف لائے اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ مجھے اپنی جان کا خوف ہے ۔ انہوں نے جواب دیا۔
ہر گز نہیں اللہ تعالیٰ کی قسم اللہ تعالی آپ ﷺ کو ضائع نہیں ہونے دے گا کیونکہ آپ ﷺ صلہ رحمی کرتے ہیں، لوگوں کے بوجھ اٹھاتے ہیں، غریبوں کو کما کر چلاتے ہیں، مہمانوں کی خاطر مدارت کرتے ہیں اور ناگہانی مصیبتوں میں لوگوں کے کام آتے ہیں۔
آپ نے غور کیا کہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے رسول اکرم ﷺ کی پانچ خوبیاں گنوائیں اور ان پانچوں کا تعلق خدمت خلق سے ہے۔ گویا انہوں نے یہ تسلی دی کہ آپ کا چونکہ لوگوں کے کام آتے ہیں اس لیے آپ کا رب آپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ مشکل وقت میں اللہ تعالی اسے تنہا نہ چھوڑ دے اور اسےضائع ہونے سے محفوظ رکھے اور اس کا طریقہ یہی ہے کہ وہ لوگوں کی خدمت کرے۔ قرآن حکیم میں ہے :
أما ما ينفع الناس فيمكن في الأرض (الرعد (17)
جو چیز لوگوں کے لیے نفع بخش ہوتی ہے روز میں میں باقی رہتی ہے۔
سول اکرم انے کا ارشاد ہے ۔
خَيْرُ النَّاسِ مَن يَنفَعُ النَّاسِ
لوگوں میں بہترین وہ ہے جو لوگوں کو نفع پہنچاتا ہے۔
رسول اکرم ﷺ کا ہمیشہ کا معمول تھا کہ آپ دوسروں کے کام کر دیتے اور معمولی کام کرنے میں بھی کوئی عار نہیں سمجھتے تھے۔
خباب بن ارت ، ایک صحابی تھے۔ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے ان کو کسی غزوہ پر بھیجا۔ خباب ، کے گھر میں کوئی مرد نہ تھا اور عورتوں کو دودھ دوھنا نہیں آتا تھا۔ آپ ﷺ ہر روز ان کے گھر جاتے اور دودھ دوھ دیا کرتے۔
حبشہ ایسا ملک ہے جہاں مسلمانوں نے ابتداء میں ہجرت کی تھی اور وہاں کے بادشاہ نجاشی نے مسلمانوں کا بہت خیال رکھا۔ حبشہ سے اب سے ایک دفعہ مہمان آئے ۔ صحابہ کرام نے چاہا کہ وہ ان کی خدمت کریں لیکن آپ نے روک دیا اور فرمایا:
انہوں نے میرے دوستوں کی خدمت کی ہے اس لیے میں خود ان کی خدمت کا فرض انجام دوں گا۔
ثقیف کے کفار جنہوں نے سفر طائف کے موقع پر آپ ﷺ پر پتھر برسائے اور آپ ﷺ کو لہولہان کر دیا تھا۔ من 9 ہجری میں جب وفد لے کر مدینہ منورہ آئے تو آپ ﷺ نے ان کو مسجد نبوی میں اُتارا اور خود ان کیمہمانی کے فرائض انجام دیئے ۔
مدینہ کی لونڈیاں آپ ﷺ کی خدمت میں آتیں اور کہتیں یا رسول اللہ ! میرا یہ کام ہے، آپ فورا اٹھ کر کھڑے ہوتے اور ان کا کام کر دیتے ۔ مدینہ میں ایک پاگل لونڈی تھی ۔ وہ ایک دن حاضر ہوئی اس نے آپ کا دست مبارک پکڑ لیا آپ ﷺ نے فرمایا اے عورت المدینہ کی جس گلی میں بھی مجھے جانا پڑے مگر میں تیرے کام آؤں گا۔ چنانچہ آپ ﷺ اس کے ساتھ تشریف لے گئے اور اس کا کام کیا۔
بیوہ اور مسکین کے ساتھ چل کر ان کا کام کر دینے میں آپ ﷺ کو عار نہیں تھا۔
ایک دفعہ آپ ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہو چکے تھے کہ ایک بدو آیا اور آپ ﷺ کا دامن پکڑ کر بولا میرا ذرا سا کام رہ گیا ہے، ایسا نہ ہو کہ میں بھول جاؤں ۔ پہلے اس کو کر دو۔ آپ ﷺ اس کے ساتھ مسجد سے باہر نکل آئے اور اس کا کام کر کے واپس آ کر نماز ادا کی۔
خلاصه
-1 اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرنے میں عظمت ہے۔
-2 رسول اکرم ﷺ اپنے کام اپنے ہاتھ سے کیا کرتے تھے۔
-3 مل جل کر کام کرنا ہو تو آپ ﷺ اپنے حصے کا کام خود کرتے اور کسی دوسرے پر نہ ڈالتے۔
-4 دوسروں کا کام کر دینا بہت بڑی نیکی ہے۔
-5 جو شخص دوسروں کے کام آتا ہے اس کا نام ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔
-6 رسول اکرم بلا امتیاز دوسروں کے کام کرتے۔
-7 جو زیاد و ضرورت مند ہوتا اس کا زیادہ خیال رکھتے ۔